بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
جنگ ہمیشہ زخم چھوڑتی ہے ، چاہے وہ بارود کے میدان میں ہو یا خیالات کے افق پر۔ حالیہ جنگی کشیدگی میں پاکستان کو کھلی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا، اور الحمدللہ، پاکستان نے نہ صرف دفاع کیا بلکہ مؤثر اور بھرپور جواب دے کر دشمن کو واضح پیغام دیا کہ یہ قوم اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ دشمن کی مہم جوئی کو ناکامی سے دوچار کرنے کے بعد جو جنگ بندی عمل میں آئی ہے، وہ بظاہر ایک خاموش وقفہ ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک موقع ہے ، موقع سوچنے کا، سمجھنے کا، اور قومی سمت درست کرنے کا۔
یہ لمحہ ایک قومی ری سیٹ بٹن کی مانند ہے، جو ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ ہم خود سے یہ سوال کریں: کیا ہم اب بھی دوسروں کے اقدامات کے جواب میں چلیں گے، یا خود پہل کر کے اپنی قومی سمت کا تعین کریں گے؟
یہ وقت صرف فائر بندی کا نہیں، بلکہ سوچوں کی تنظیم، رویوں کی درستگی، اور پالیسیوں کی تجدید کا ہے۔ پاکستان 1947 سے اب تک مسلسل چیلنجز کی زد میں رہا ہے ، کبھی بیرونی دشمنوں کی سازشیں، کبھی اندرونی انتشار، کبھی سیاسی عدم استحکام، انتہا پسندی، دہشت گردی، لسانی تعصبات، اور کبھی معاشی بحران۔ ان تمام آزمائشوں نے ہمیں سبق سکھایا ہے، لیکن اب وقت آ چکا ہے کہ وہ سبق محض کتابوں میں نہ رہیں، بلکہ پالیسی، رویے اور ادارہ جاتی عمل کا حصہ بنیں۔
اصل معرکہ اب توپ و تفنگ کا نہیں، بیانیے، معیشت، قومی وحدت، اور ادارہ جاتی استحکام کا ہے۔ یہی وہ ستون ہیں جن پر پاکستان کی بقا، ترقی، اور خودمختاری کھڑی ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان کی کمزوری صرف دشمن کے بارود سے نہیں، بلکہ اندرونی کرداروں کی خودغرضی، کمزوری اور بداعتمادی سے جنم لیتی ہے۔ ان عناصر سے زیادہ خطرناک کوئی اور نہیں جو بظاہر سیاسی یا فکری لبادے میں ریاست کے نظریے کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔
ایسے افراد کے لیے زیرو برداشت کی پالیسی ناگزیر ہو چکی ہے ، مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہر اختلافِ رائے غداری نہیں ہوتا۔ وہ آوازیں جو آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی محرومیوں اور مسائل کی نشاندہی کرتی ہیں، انہیں اپنائیت، توجہ اور انصاف دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہی وہ باریک فرق ہے جس سے ریاست کی سنجیدگی اور بالغ نظری ظاہر ہوتی ہے۔
ریاست کو چاہیے کہ وہ داخلی سطح پر فوری طور پر سیاسی استحکام، عدالتی اصلاحات، اور معاشی خود انحصاری کی طرف قدم بڑھائے۔ تعلیم، میڈیا، اور بیانیہ سازی کے میدان میں فوری اصلاحات ناگزیر ہیں تاکہ نوجوان نسل کو فکری یلغار سے بچایا جا سکے۔ بیرونی محاذ پر پاکستان کو اپنی سفارتی پوزیشن مضبوط کرنی ہوگی، عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے منظم مہم کی ضرورت ہے، اور دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانا ہوگا۔
ہمیں صرف دفاعی طاقت پر نہیں، بلکہ فکری اور معاشی طاقت پر بھی انحصار بڑھانا ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دشمن اب صرف سرحد پر نہیں، بلکہ ہر اس پوسٹ، اس وڈیو، اس نعرے، اور اس تاثر میں بھی چھپا ہے جو ہمیں تقسیم کرتا ہے، اداروں کو مشکوک بناتا ہے، اور نوجوانوں کو مایوسی کی طرف دھکیلتا ہے۔
آئیں! اس جنگ بندی کو سانس لینے کا وقفہ نہیں، قومی بیداری کا لمحہ بنائیں۔ ایک نیا عہد کریں — ایسا عہد جس میں پاکستان صرف جغرافیائی طور پر نہیں، بلکہ نظریاتی، اخلاقی، اور تہذیبی طور پر بھی ناقابلِ شکست ہو۔
وقت ہے کہ ہم جذباتی ردِعمل سے نکل کر بالغ، متوازن، اور قومی مفاد پر مبنی ریاستی رویہ اپنائیں۔ یا تو ہم تاریخ کے اس موڑ پر ایک نیا باب رقم کریں گے یا ہمیشہ کی طرح وقت کے دھارے میں بہتے رہیں گے۔
(15 مئی 2025)