GHAG

شعلوں میں لپٹی دنیا: طاقت وروں کی منافقت اور اخلاقی زوال

شعلوں میں لپٹی دنیا: طاقت وروں کی منافقت اور اخلاقی زوال

بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی

جدید تاریخ میں طاقتور ممالک نے آزادی، جمہوریت اور عالمی سلامتی کے نعروں کے تحت دنیا کے مختلف حصوں میں بار بار تباہی مچائی ہے۔ مگر ان بلند دعوؤں کے پیچھے ایک بھیانک حقیقت چھپی ہے: طاقت، وسائل، اور عالمی تسلط کی وہ پیاس جو انسانی جانوں کی پروا کیے بغیر سب کچھ روندتی چلی گئی۔ خاص طور پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے مداخلتوں کے ذریعے نہ صرف خودمختار ریاستوں کی حاکمیت پامال کی، بلکہ پورے معاشرے اجاڑ دیے، لاکھوں انسانوں کو بے گھر کیا، اور نسلوں تک رہنے والے زخم دیے۔

1980 کی دہائی میں افغانستان میں، عالمی طاقتوں نے سوویت یونین کے خلاف پراکسی جنگ لڑی۔ مذہبی جوش کو ہوا دی گئی، جنگجوؤں کو مالی و عسکری امداد دی گئی، اور اسے جہاد قرار دیا گیا۔ لیکن مقصد حاصل ہونے کے بعد انہی لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر افغانستان کو تباہی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد وہاں بدامنی، انتہاپسندی اور بیرونی مداخلت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ عراق کو جھوٹ پر مبنی الزامات ، کہ وہاں وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیار موجود ہیں ، کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔ یہ جنگ ایک کروڑ سے زائد انسانی جانیں لے گئی، ملک کی معیشت اور ڈھانچہ تباہ ہوا، اور معاشرہ فرقہ واریت کی دلدل میں دھنس گیا۔ اور آخرکار یہ بھی ثابت ہوا کہ وہاں ایسے ہتھیار تھے ہی نہیں۔

لیبیا میں نیٹو نے انسانی ہمدردی کے نام پر معمر قذافی کی حکومت گرا دی۔ لیکن اس کے بعد ملک کو ملیشیا گردی، بدامنی اور غلامی کی منڈیوں کے حوالے کر دیا۔ شام میں بھی عالمی طاقتوں نے اپنی چالیں چلیں، جہاں ہر طرف سے اسلحہ، جنگجو اور سرمایہ جھونکا گیا ۔ نتیجہ، ایک مکمل انسانی المیہ، لاکھوں ہلاک یا بے گھر، اور تباہ حال شہر کی صورت میں نکلاـ

فلسطین اس ظلم و منافقت کی ایک نمایاں مثال ہے۔ غزہ پر بار بار ہونے والی بمباری، ناکہ بندی، اور اجتماعی قتلِ عام میں ہزاروں بے گناہ افراد مارے گئے، جن میں بڑی تعداد بچوں اور عورتوں کی تھی۔ ان مظالم کو طاقتور ممالک نہ صرف نظر انداز کرتے ہیں بلکہ دفاع کے نام پر جائز بھی قرار دیتے ہیں۔ عالمی ادارے خاموش ہیں یا سیاسی دباؤ میں آکر عملی قدم اٹھانے سے قاصر۔

اب نشانہ ایران ہے۔ معاشی پابندیاں، تخریبی کارروائیاں، اور جنگی دھمکیاں معمول بن چکی ہیں۔ یہ سب کچھ اس بہانے سے کیا جا رہا ہے کہ ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکا جائے، جبکہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والے جارح ممالک پر کوئی پابندی نہیں۔ مغرب کے سیاسی رہنما، بشمول امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، کھلے عام ایران پر حملے کی بات کر چکے ہیں، جو اسلحہ بردار سیاست کو معمول بنانے کی خطرناک علامت ہے۔

یہ طرزِ عمل نیا نہیں۔ 1945 میں امریکہ نے جاپان کے دو شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے، جس سے لاکھوں لوگ لمحوں میں ہلاک ہو گئے۔ آج تک نہ معافی مانگی گئی، نہ شرمندگی کا اظہار۔ ویتنام میں بھی لاکھوں افراد کیمیکل ہتھیاروں اور بمباری کا نشانہ بنے۔ حالیہ دور میں یوکرین بھی ایک اور جنگی میدان بن چکا ہے، جہاں عالمی طاقتیں اسلحہ جھونک کر جنگ کو طول دے رہی ہیں، اور عام لوگ تباہ ہو رہے ہیں۔

اس پوری تاریخ کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بعض بڑے مسلم ممالک نے یا تو خاموشی اختیار کی، یا اپنی سیاسی و معاشی مصلحتوں کے تحت عالمی طاقتوں کا ساتھ دیا۔ مگر تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ یہ تعاون نہ تو تحفظ دیتا ہے، نہ عزت۔ جو آج کسی اور کے خلاف استعمال ہوتے ہیں، کل خود نشانہ بن جاتے ہیں۔

جدید دنیا سے توقع تھی کہ وہ امن، ترقی اور انسانی اقدار پر مبنی ہو گی۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ جنگی مشینری مزید مؤثر ہو گئی، پروپیگنڈا مزید چالاک، اور اخلاقیات مزید دوغلی۔ وہ جو انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، ظالم حکومتوں کے حامی ہیں۔ وہ جو جانوروں پر ظلم کے خلاف قوانین بناتے ہیں، بچوں کے قتلِ عام پر خاموش ہیں۔ انصاف کے نام پر سیاست، اور اخلاقیات کے نام پر مفاد پرستی ہو رہی ہے۔

اب وقت ہے کہ عالمی ضمیر جاگے۔ دنیا بھر کے امن پسند افراد، چاہے وہ کسی بھی مذہب، قوم یا سیاسی نظریے سے ہوں، اس خاموشی کو توڑیں۔ یہ جنگیں صرف سرحدیں نہیں چیرتیں، یہ سکول، ہسپتال اور گھروں کو نشانہ بناتی ہیں۔ ان کا شکار عام انسان بنتے ہیں، بچے، ماں، بزرگ، جو کسی کی جنگ کا ایندھن نہیں بننا چاہتے۔ حکومتیں، سول سوسائٹی، میڈیا اور عام شہری مل کر ایک آواز بنائیں۔ انصاف کا مطالبہ کریں، سچ سامنے لائیں، اور انسانیت کا ساتھ دیں۔ خاموشی جرم ہے۔ اگر ہم نے اب بھی کچھ نہ کیا، تو ہم نہ صرف مظلوموں کو دھوکہ دیں گے بلکہ خود بھی اسی نظام کا شکار بنیں گے جسے ہم نے روکا نہیں۔

دنیا آج ایک خطرناک موڑ پر ہے۔ طاقتور اقوام نے پولیس اور حکمران بننے کی خواہش میں انسانیت کو ایک گہرے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ حتیٰ کہ زمانۂ سنگ میں بھی جنگ کے کچھ اصول ہوا کرتے تھے۔ مگر آج کی نام نہاد مہذب دنیا میں وہ بھی باقی نہیں رہے۔ قیادت کا نام محض تسلط بن گیا ہے۔ انصاف کی جگہ جبر نے لے لی ہے۔ ہتھیار بدلے ہیں، مگر ظلم وہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts