GHAG

بلاول بھٹو: سفارت کاری کی تجدید اور روایت کا تسلسل

بلاول بھٹو: سفارت کاری کی تجدید اور روایت کا تسلسل

بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی

پاک-بھارت کشیدگی کے تناظر میں ایک اعلیٰ سطحی سفارتی مشن کی قیادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری وطن واپس لوٹ آئے ہیں۔ ان کا گیارہ روزہ دورہ ، جس میں واشنگٹن، لندن اور برسلز جیسے اہم دارالحکومت شامل تھے، پاکستان کے مؤقف کو مؤثر انداز میں عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں کامیاب رہا۔ انہوں نے بھارت کی اشتعال انگیزیوں کو بے نقاب کیا، پاکستان کے امن کے پیغام کو دہرایا، اور عالمی برادری کو جنوبی ایشیا میں ممکنہ عدم استحکام کے خطرات سے خبردار کیا۔

اس دورے نے ثابت کیا کہ بلاول نہ صرف اعتماد اور وضاحت کے ساتھ پاکستان کی نمائندگی کرنے کے اہل ہیں، بلکہ یہ صلاحیتیں بھٹو خاندان کی وراثت میں رچی بسی ہیں۔ جس طرح ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ لڑا، بلاول نے بھی دنیا کے سامنے پاکستان کا مؤقف پیش کرنے کی بھرپور صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ ان کی کارکردگی نے نوجوان نسل میں ایک نئی امید کو جنم دیا ہے، جو انہیں ایک جدید، باوقار اور موثر رہنما کے طور پر دیکھتی ہے، ایک ایسا رہنما جو روایت اور بدلتی ہوئی دنیا کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

یہ سفارتی کوشش پاکستان کی ایک وسیع تر حکمتِ عملی کا حصہ ہے، خاص طور پر مغربی دنیا میں، جہاں بھارت کی بڑھتی ہوئی لابنگ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے اور پاکستان کا بیانیہ خود پیش کرنے کی ضرورت شدت اختیار کر چکی ہے۔ یہ صرف خارجہ پالیسی کی کوشش نہیں، بلکہ ایک ایسی سیاسی روایت کا تسلسل ہے جو پاکستان کی بین الاقوامی شناخت کا حصہ رہی ہے۔

بھٹو خاندان تاریخی طور پر پاکستان کی خارجہ پالیسی اور عالمی تعلقات میں مرکزی حیثیت رکھتا آیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، جنہیں پاکستان کی جدید سفارتکاری کا معمار سمجھا جاتا ہے، نے 1960 کی دہائی میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے پاکستان کے عالمی تعلقات کو نئی جہت دی۔ انہوں نے چین کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کی بنیاد رکھی، مسلم دنیا سے روابط کو مستحکم کیا، اور 1974 میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کی میزبانی کی۔ ان کی 1971 میں اقوام متحدہ میں کی گئی تاریخی تقریر ،جس میں انہوں نے تقریر کے نوٹس پھاڑ کر اجلاس سے واک آؤٹ کیا، آج بھی پاکستان کے سفارتی عزم کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ بعد ازاں انہوں نے شملہ معاہدے پر دستخط کر کے پاکستان کی سفارتی پوزیشن کو مستحکم کیا اور ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھ کر ملک کے دفاعی نظریے کو نئی جہت دی۔

بے نظیر بھٹو نے اس سفارتی وراثت کو ایک نئی جہت بخشی۔ ایک مسلم اکثریتی ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے طور پر، انہوں نے دنیا بھر میں پاکستان کا مثبت تاثر قائم کیا۔ اپنے دونوں ادوارِ حکومت میں انہوں نے امریکہ، برطانیہ اور دیگر علاقائی طاقتوں سے اعلیٰ سطحی تعلقات قائم کیے۔ انہوں نے پاکستان کو ایک معتدل، جمہوری اور ترقی پسند ریاست کے طور پر پیش کیا، اور تعلیم، خواتین کے حقوق، اور صحت جیسے شعبوں میں اپنی عالمی ساکھ کو مضبوط کیا۔

اب بلاول بھٹو زرداری اس عظیم روایت کو ایک نئے عالمی سیاق و سباق میں لے کر آگے بڑھا رہے ہیں ، ایک دنیا جو بڑی طاقتوں کے مقابلے، ماحولیاتی بحرانوں اور ڈیجیٹل تبدیلیوں سے دوچار ہے۔ وزیر خارجہ کی حیثیت سے انہوں نے اقوام متحدہ میں 2022 کے تباہ کن سیلاب پر جو خطاب کیا، اس نے پاکستان کو ماحولیاتی انصاف کے عالمی ایجنڈے پر نمایاں کر دیا۔ ان کی سفارتی انداز میں روایت اور جدیدیت کا حسین امتزاج ہے، جو عالمی سطح پر سامعین کو متاثر کرتا ہے۔

حالیہ دورہ صرف ردعمل نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا قدم تھا۔ بلاول اور ان کی ٹیم نے مسئلہ کشمیر، خطے کی سلامتی، اور پاکستان کے امن کے عزم جیسے نکات پر دو ٹوک اور واضح مؤقف اختیار کیا۔ ان کا پیغام ہر جگہ ایک جیسا تھا: پاکستان کو دوسروں کے ذریعے نہیں، خود اپنی زبان میں سنا جائے۔ ان کی سفارتکاری صرف بحرانوں کا توڑ نہیں، بلکہ عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے اور پاکستان کے مؤقف کو اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش ہے۔

بلاول کو جو چیز دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ صرف ان کا خاندانی پس منظر نہیں بلکہ ان کا عالمی منظرنامے پر مضبوط ادراک ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ آج کی سفارتکاری صرف سرکاری حلقوں تک محدود نہیں، بلکہ میڈیا، نوجوانوں، اور سول سوسائٹی سے بھی براہِ راست تعلق کی متقاضی ہے۔ ان کی بین الاقوامی کانفرنسوں، میڈیا انٹرویوز، اور دو طرفہ ملاقاتوں میں پراعتماد موجودگی ایک ایسی تبدیلی کی علامت ہے جو پاکستان کی عالمی شناخت کو زیادہ پراعتماد، واضح اور مستقبل شناس بنا سکتی ہے۔
اگرچہ اندرونی چیلنجز اپنی جگہ موجود ہیں، لیکن بلاول کی عالمی سطح پر کامیاب کارکردگی ایک حوصلہ افزا اشارہ ہے۔ اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ پاکستان میں اہل، بین الاقوامی سطح پر فہم رکھنے والی قیادت نہ صرف موجود ہے بلکہ ابھر رہی ہے۔ ایک ایسے سیاسی منظرنامے میں جہاں تقسیم، شور شرابہ، اور وقتی سیاست کا راج ہے، بلاول جیسا سنجیدہ، علم دوست اور عالمی مزاج رکھنے والا رہنما امید کی ایک کرن بن کر سامنے آیا ہے۔
بھٹو خاندان کی تیسری نسل میں یہ روایت مزید مستحکم ہو رہی ہے کہ پاکستان کو عالمی منظرنامے میں ایک باوقار مقام دیا جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جرأت، بینظیر بھٹو کی حکمت عملی، اور بلاول بھٹو زرداری کی وضاحت ، یہ سب مل کر ایک ایسی سفارتی سوچ کا تسلسل ہے جو خودمختاری، امن، اور ترقی پسند رابطے پر یقین رکھتی ہے۔

ان غیر یقینی حالات میں، بلاول بھٹو زرداری نے ثابت کیا ہے کہ وہ صرف ایک نام نہیں، بلکہ پاکستان کے لیے ایک مؤثر آواز ہیں۔ اور ایک ایسے وقت میں جب ملک کو مستحکم قیادت اور بصیرت کی شدید ضرورت ہے، یہ معمولی بات نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts