GHAG

عالمی توازن کی جنگ یا کچھ اور ؟

عالمی توازن کی جنگ یا کچھ اور ؟

اے وسیم خٹک

ایران اور اسرائیل اب محض بیانات کی جنگ میں نہیں، باقاعدہ عسکری تصادم میں داخل ہو چکے ہیں۔ میزائل حملے، ڈرون وار، جوابی بمباری، اور مسلسل خطرات، اب یہ سب کچھ حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر شعلوں میں لپٹا ہوا ہے، اور دنیا کے وہ دو ممالک جو برسوں سے ایران کے اسٹریٹجک اتحادی کہلاتے تھے چین اور روس اس پوری جنگ کے بیچ میں صرف چند روایتی جملے بول کر پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ ان کی خاموشی بزدلی نہیں، بلکہ شاید ایک ایسی مصلحت ہے جو انہیں اپنے ہی بنائے ہوئے مفادات سے محروم کر سکتی ہے۔

ایران پر جو کچھ اس وقت گزر رہا ہے، وہ کسی ایک ملک کی جنگ نہیں۔ یہ ایک عالمی توازن کا معرکہ ہے، جس کا مرکز ایران ہے، لیکن دائرہ کار چین سے لے کر پاکستان تک پھیلتا ہے۔ چین، جو ایران کی زمین پر 25 سالہ معاہدے کے تحت انفراسٹرکچر، توانائی اور تجارتی راہداریوں میں اربوں ڈالر جھونک چکا ہے، آج صرف “صورتحال پر تشویش” کے الفاظ ادا کر رہا ہے۔ کیا یہ وہی چین ہے جو ایران کو بیلٹ اینڈ روڈ کا مرکزی کردار قرار دیتا تھا؟ کیا وہی بیجنگ، جو گوادر سے تہران تک زمینی راستے بنانے کے منصوبے تیار کر رہا تھا؟ آج جب تہران کی فضاؤں میں دھماکوں کی گونج سنائی دیتی ہے، چین اپنی عالمی ساکھ بچانے کے لیے اسرائیل سے آنکھیں چرا رہا ہے کیونکہ چین کے اپنے مفادات اسرائیل کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں: تجارت، ٹیکنالوجی، اور مغرب میں سفارتی بیلنس۔

روس کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ وہ ایران جس نے شام میں روس کے ساتھ مل کر امریکی اتحاد کے خلاف محاذ سنبھالا، وہ ایران جس نے روس کو شاہد ڈرونز دیے، وہ ایران جو یوکرین جنگ کے دوران ماسکو کا غیر اعلانیہ سپلائی بیس بنا آج جب وہی ایران اسرائیل کے میزائلوں اور امریکی دباؤ میں جل رہا ہے، روس فقط بیان دے رہا ہے کہ “ہم فریقین سے صبر کی اپیل کرتے ہیں”۔ روس جانتا ہے کہ اگر ایران بکھرتا ہے، تو مشرقِ وسطیٰ میں اس کے اثر کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ترکی، اسرائیل اور نیٹو کا راستہ کھل جائے گا، اور روس کے لیے جنوب کی راہداری ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گی۔ لیکن پھر بھی، ماسکو کوئی فیصلہ کن موقف اختیار نہیں کرتا شاید اس لیے کہ وہ خود یوکرین میں پھنسا ہوا ہے، یا شاید وہ ایران کی بقا کی قیمت پر اپنی گلوبل گیم کھیل رہا ہے۔

اور تیسرا ملک ہے پاکستان۔ وہ ملک جو ایران کا براہِ راست ہمسایہ ہے، جو پہلے ہی داخلی خلفشار، اقتصادی دباؤ، اور علاقائی غیر یقینی کی حالت میں ہے، اس کے لیے ایران کا غیر مستحکم ہونا ایک سرحدی بحران، ایک توانائی کی تباہی، اور فرقہ واریت کی چنگاری بن سکتا ہے۔ ایران کی سرحد کے پار بلوچستان پہلے ہی حساس ہے۔ اگر ایران میں بغاوت، خانہ جنگی یا مکمل انتشار شروع ہو گیا، تو پاکستان کی مغربی سرحد کھول کر خطرناک عناصر کے لیے ایک راہداری بن جائے گی۔ افغانستان کی مثال ابھی پرانی نہیں ہوئی۔ اگر پاکستان اس وقت بھی خاموش رہا، تو کل اس کے دروازے پر وہ آگ دستک دے گی جسے آج وہ دوسروں کے صحن میں جلتا دیکھ کر بے نیاز ہے۔

پاکستان کے لیے ایران محض ہمسایہ نہیں، ایک جغرافیائی سانس ہے۔ ایران کی سرزمین وسطی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور ترکی کے ساتھ پاکستان کو ملاتی ہے۔ ایران کی گیس، تیل اور سڑکیں پاکستان کی معیشت کا سہارا بن سکتی تھیں، اگر عالمی سیاست اور داخلی بزدلی راستہ نہ روکتی۔ آج جب جنگ چھڑ چکی ہے، جب تہران اور تل ابیب براہِ راست تصادم میں آ چکے ہیں، تب پاکستان کو صرف غیرجانبداری کا لبادہ اوڑھ کر بیٹھنا نہیں چاہیے۔ ایران اگر جلتا ہے، تو پاکستان کا سایہ اس دھویں سے محفوظ نہیں رہے گا۔

عالمی طاقتوں کی خاموشی، مسلم ممالک کی بے حسی، اور اسرائیل کی پیش قدمی یہ سب مل کر ایک ایسا لمحہ پیدا کر چکے ہیں جہاں ایران کا زوال نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کے لیے بلکہ پورے ایشیا کے توازن کے لیے تباہ کن ہو گا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اس زوال کا سب سے بھاری بوجھ انہی تین ملکوں پر پڑے گا، جو آج یا تو خاموش ہیں، یا تماشائی: چین، روس، اور پاکستان

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts