GHAG

خیبر پختونخوا: سیلاب اور سکینڈل

خیبر پختونخوا: سیلاب اور سکینڈل

اے وسیم خٹک

تیرہ سال خیبر پختونخوا میں حکومت پی ٹی آئی کی رہی، اس سے پہلے ن لیگ اور ایم ایم اے سمیت اے این پی کی حکومت رہی اور ہر سال سیلاب آتے رہے۔ اقدامات ہوتے رہے مگر کوئی فائدہ نہیں لیا گیا۔ 2010 کے سیلاب سے لیکر اب تک ہر سال سیلاب آتے رہے اور اس کی ہر سال وارننگ بھی دی جاتی ہے مگر پھر بھی ناکامیاں ہوتی ہیں۔ کسی نے بھی اس پر نہیں سوچا۔ دوہزار دس میں روزنامہ مشرق میں مارچ میں ایک خبر بریک کی تھی کہ اس سال سیلاب کا خطرہ ہے۔ اس پر ادارے کو رابطہ کیا گیا کہ تردید چلائیں مگر میں نے کہا کہ یہ کنفرم خبر ہے۔ اس وقت میں نے نوشہرہ کے مقام پر لگے ریڈار کی نشاندہی کی تھی کہ وہ کام نہیں کر رہا اور باقی بھی ریڈار ٹھیک نہیں ہیں شاید اب بھی وہ صرف برائے نام کے موجود ہوں۔ جولائی دو ہزار دس کے آخر میں جو سیلاب آیا اس نے میری خبر کی تصدیق کی اور محکمہ موسمیات والے خاموش ہو گئے۔ پھر اس کے بعد بہت سے ادارے اور بھی بنے مگر اب بھی نتائج وہی ہیں۔ جولائی کے آخر میں آنے والا حالیہ سیلاب اور دو سال پہلے کا سیلاب بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ آج تک کچھ نہیں بدلا۔

پھر این ڈی ایم اے کا ادارہ بن گیا جو آرمی کے زیر اثر ہے۔ ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی بنی، یونیورسٹیوں میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے شعبے بنے، ریسکیو 1122 کا ادارہ قائم ہوا۔ سول ڈیفنس کے ادارے سالوں سے کام کر رہے ہیں لیکن وہاں بھی صرف خانہ پری ہو رہی ہے۔ بجٹ بنتے ہیں، اجلاس ہوتے ہیں، سیمینار ہوتے ہیں، خبریں چھپتی ہیں مگر دریا کے کنارے مضبوط نہیں ہوتے، جنگلات کی کٹائی نہیں رُکتی اور ریڈار اب بھی ناکارہ ہیں۔

اس سب کے باوجود ذمہ داری کا بوجھ کسی ایک پر نہیں ڈالا جا سکتا لیکن موجودہ حکومت پر اس لیے زیادہ بات ہوتی ہے کہ انہوں نے تیرہ سال صوبے پر حکومت کی۔ اس دوران جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہوئی، اور اربوں روپے کے اسکینڈل منظر عام پر آئے۔ مالم جبہ اسکینڈل، گندم اسکینڈل، صحت کارڈ اسکینڈل، کوہستان کا چالیس ارب کا اسکینڈل اور بی آر ٹی میگا اسکینڈل جیسے بڑے کیسز سامنے آئے۔ اگر یہی پیسہ عوام کی جان و مال بچانے پر لگتا تو آج شاید خیبر پختونخوا کی تصویر مختلف ہوتی۔

ہر سال کی تباہی یہ بتاتی ہے کہ ہمارے ہاں پالیسیاں صرف کاغذوں میں بنتی ہیں۔ اگر نوشہرہ کا ریڈار وقت پر درست ہوتا، اگر دریاؤں کے کنارے پشتے مضبوط کیے جاتے، اگر پہاڑوں پر درخت نہ کاٹے جاتے، اگر این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے، ریسکیو 1122 اور سول ڈیفنس جیسے ادارے محض فائلوں میں نہیں بلکہ زمین پر فعال ہوتے تو آج ہر سال لوگوں کو دریا کے بیچ پتھروں پر کھڑے ہو کر مدد کی فریاد نہ کرنی پڑتی۔

بدقسمتی سے جو پیسہ عوام کی زندگی بچانے پر لگنا تھا وہ اربوں روپے کے اسکینڈلوں کی نذر ہوا۔ اگر مالم جبہ، گندم، صحت کارڈ، کوہستان اور بی آر ٹی جیسے اسکینڈل نہ ہوتے یا ان کے پیسے سیلاب سے بچاؤ کے اقدامات پر لگتے تو خیبر پختونخوا میں آج اتنی بربادی نہ ہوتی۔ نہ لوگ ڈوبتے، نہ بستیاں اجڑتیں، نہ کھیت بنجر ہوتے۔

قدرتی آفات کو روکا نہیں جا سکتا لیکن ان کے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ ادارے محض نام کے نہ ہوں بلکہ عملی طور پر کام کریں، کرپشن پر قابو پایا جائے، ترقیاتی فنڈز صحیح جگہ استعمال ہوں اور جنگلات کی حفاظت کی جائے۔ بصورت دیگر ہر سال یہی کہانیاں، یہی خبریں اور یہی آنسو ہماری قسمت رہیں گے اور متاثرہ عوام اپنی زندگی کی کشتی پھر اُسی دریا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts

اسرائیل ایران جنگ بندی

حیدر جاوید سید لیجئے اسرائیل ایران جنگ بند ہوگئی، نامعلوم ماہرین اور ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق ایران کا قطر میں امریکی بیس پر حملہ

Read More »