اے وسیم خٹک
پشاور کے علاقے ترناب کا ایک نوجوان بیرون ملک جانے کی خواہش رکھتا تھا۔ اس نے فیس بک کے ذریعے کینیڈا کی ایک خاتون سے دوستی کر لی۔ وہ خاتون پشاور آ گئی۔ چونکہ لڑکے کا گھر مناسب نہیں تھا، اس لیے اس نے ایک ہوٹل میں ایک ماہ کے لیے کمرہ بک کیا۔ دونوں نے ایک مہینہ خوشی خوشی گزارا۔ بعد ازاں خاتون واپس چلی گئی اور کہا کہ وہ کینیڈا سے کاغذات بھیجے گی تاکہ وہ بھی وہاں آ سکے۔ لیکن وہ دن اور آج کا دن، اُس خاتون کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ نہ کاغذات آئے، نہ دوبارہ کوئی رابطہ ہوا۔جبکہ کچھ محبتیں وقتی ہوتی ہیں، جو حقیقت کے سامنے آتے ہی ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں۔ مگر کچھ ایسے تعلقات بھی ہوتے ہیں جو پایۂ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔
جن میں محبت کا عنصر، پاگل پن، جلد بازی، یا پھر کوئی خفیہ مقصد شامل ہوتا ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی خواتین کی پاکستانی نوجوانوں سے شادی کے واقعات میں تیزی آئی ہے، خاص طور پر خیبرپختونخوا کے علاقوں اپر دیر، بونیر، سوات، اور آزاد کشمیر میں۔ یہ شادیاں زیادہ تر سوشل میڈیا کے ذریعے ہونے والے روابط کے نتیجے میں ہوتی ہیں، جب غیر ملکی خواتین اسلام قبول کر کے نکاح کے لیے پاکستان آتی ہیں۔ ان میں امریکہ، جرمنی، فرانس، فلپائن، برطانیہ، کینیڈا، اور دیگر ممالک کی خواتین شامل ہیں۔
کئی مثالیں تو میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس پر وائرل ہو چکی ہیں۔ جیسے شکاگو کی مینڈی، جس نے اپر دیر کے نوجوان ساجد زیب خان سے شادی کی۔ فرانس کی ایمیلیا نے پشاور کے عاطف خان سے سادگی سے نکاح کیا۔ جرمنی کی نادیا نے حافظ نعمان سے قرآن کلاسز کے دوران متاثر ہو کر اسلام قبول کیا اور پاکستان آ کر نکاح کیا۔ فلپائن کی ماریہ نے ایبٹ آباد کے ندیم شاہ، برطانیہ کی جیسیکا نے گجرات کے وسیم اختر، اور کینیڈا کی انا نے لاہور کے بلال خان سے شادی کی۔
ان کہانیوں میں جذبات، خلوص، اور بین الثقافتی میل جول کا پہلو موجود ہے۔ دین اسلام سے متاثر ہو کر آنے والی خواتین کا نیا طرز زندگی اختیار کرنا اور پاکستانی خاندانی نظام کو قبول کرنا ایک مثبت رجحان سمجھا جا سکتا ہے۔ مقامی کمیونٹی ایسے جوڑوں کو سراہتی ہے اور ان کی پذیرائی بھی کرتی ہے۔
لیکن ان تمام کہانیوں کے درمیان کچھ سوالات بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اکثر غیر ملکی خواتین انہی مخصوص علاقوں کا انتخاب کرتی ہیں جہاں نگرانی کا نظام کمزور ہے، اور لوگ سادہ دل ہیں۔ خاص طور پر مالاکنڈ ڈویژن جیسے دیر، سوات، اور بونیر اس حوالے سے غیر معمولی حد تک “مرکزِ توجہ” بن چکے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ دیر بالا میں پیش آیا، جب ایک بھارتی خاتون نے سوشل میڈیا پر دوستی کے بعد مقامی نوجوان سے شادی کی کوشش کی۔ تحقیقات میں معلوم ہوا کہ اس کا ویزہ اور دیگر دستاویزات مشکوک تھیں، جس کے بعد اُسے حراست میں لے لیا گیا۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ دشمن قوتیں مذہب، محبت، اور ثقافت جیسے حساس عنوانات کو استعمال کرتے ہوئے “سافٹ انفلٹریشن” کے ذریعے ایک ملک کے اندر اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں۔
ایران میں موساد کی کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ کس طرح بیرونی ایجنسیاں بے ضرر نظر آنے والے کرداروں کے ذریعے اندرون ملک تباہ کن نتائج کا سبب بن سکتی ہیں۔ ایران میں کئی اہم شخصیات کو اسی طریقہ کار سے نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان چونکہ جیو پولیٹیکل لحاظ سے ہمیشہ عالمی طاقتوں کی توجہ میں رہا ہے، اس لیے ہمیں بھی اسی قسم کے خطرات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
یہ کہنا ہرگز مناسب نہیں کہ ہر غیر ملکی خاتون مشکوک ہے یا ہر بین الاقوامی شادی کے پیچھے سازش ہے۔ مگر احتیاط اور سیکیورٹی کا تقاضا یہی ہے کہ ہر ایسے معاملے کی باقاعدہ تصدیق، تحقیق اور نگرانی کی جائے۔
ریاستی اداروں، خصوصاً ایف آئی اے، نادرا، امیگریشن، اور سکیورٹی ایجنسیز کو ایسے تمام کیسز کی باریک بینی سے جانچ کرنی چاہیے۔ غیر ملکی خواتین کے داخلے، قیام، اور نقل و حرکت پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ مقامی سطح پر نکاح رجسٹریشن کے ساتھ ساتھ اُن کے سسرال والوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ درست معلومات فراہم کریں اور متعلقہ اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔
یہ ذمہ داری صرف اداروں کی نہیں، عوام کی بھی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے قائم ہونے والے رشتے بظاہر خوش آئند ہو سکتے ہیں، مگر ان میں دھوکہ دہی یا پسِ پردہ مقاصد بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ ایسے تعلقات میں غیر معمولی جوش دکھانے کی بجائے دانشمندی اور محتاط رویہ اختیار کریں۔ والدین اپنے بچوں کے ساتھ رابطے میں رہیں تاکہ جذباتی فیصلوں میں اُنہیں رہنمائی ملے۔
پاکستان ایک مہمان نواز، محبت کرنے والا ملک ہے۔ لیکن اس مہمان نوازی کی حدیں قومی سلامتی اور نظریاتی شناخت سے باہر نہیں نکلنی چاہییں۔ ہمیں اپنی کھلی بانہوں کے ساتھ ساتھ اپنی آنکھیں بھی کھلی رکھنی ہوں گی۔
محبت اپنی جگہ، مگر اندھا اعتماد کبھی بھی قومی مفاد کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان ہمارا گھر ہے، اور گھر کی حفاظت صرف دروازے بند کرنے سے نہیں ہوتی، بلکہ یہ دیکھنے سے بھی ہوتی ہے کہ کون اندر آ رہا ہے، کیوں آ رہا ہے، اور کس نیت سے آ رہا ہے۔ ہمیں دل کھلے رکھنے چاہییں، لیکن آنکھیں بند نہیں کرنی چاہییں۔ جذبات اور سیکیورٹی کے درمیان توازن قائم رکھنا ہی ایک محفوظ اور مضبوط ریاست کی پہچان ہے۔
ہمیں بحیثیت قوم اس معاملے میں سنجیدگی اور ہوشمندی کے ساتھ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے آج احتیاط نہ کی تو کل صرف افسوس رہ جائے گا۔ انفرادی شعور، ادارہ جاتی نگرانی، اور اجتماعی ذمہ داری ہی وہ دیوار ہے جو ہمیں دشمن کی سافٹ مداخلت جیسے خطرات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔پاکستان کو محفوظ رکھنا صرف ریاستی اداروں کا نہیں، بلکہ ہر فرد کا مشترکہ فرض ہے۔ اور یہی فرض، وقت کی سب سے بڑی پکار ہے۔