اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے 27 یوٹیوب چینلز کو بند کرنے کا حکم جاری کیا ہے، جن پر الزام ہے کہ وہ ریاست مخالف، جھوٹے اور اشتعال انگیز بیانیے پھیلا رہے ہیں۔ یہ کارروائی نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کی تفتیش کے بعد کی گئی، جس نے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے سیکشن 37 کے تحت ان چینلز کو غیر قانونی آن لائن مواد کے مرتکب پایا۔ عدالت نے گوگل کے متعلقہ شعبے کو ہدایت دی ہے کہ ان چینلز کو فوری طور پر بلاک یا حذف کیا جائے۔
اس فیصلے نے ملک بھر میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ کچھ حلقے اسے آزادیِ اظہار پر قدغن قرار دے رہے ہیں، جبکہ دیگر کے نزدیک یہ قومی سلامتی اور ریاستی خودمختاری کے لیے ایک ضروری اقدام ہے۔ ہم اس فیصلے کے قانونی پہلوؤں یا اس امکان میں نہیں جاتے کہ آیا یہ اعلیٰ عدالتوں میں برقرار رہے گا یا نہیں، لیکن ایک حقیقت واضح ہے: آزادیِ اظہار ایک بنیادی حق ضرور ہے، مگر یہ حق نہ لا محدود ہے، نہ غیر مشروط۔ جب اس آزادی کو ریاست کو کمزور کرنے، اداروں کی ساکھ کو مجروح کرنے، اور قوم کو تقسیم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے، تو وہ آزادی نہیں، بلکہ فتنہ پروری بن جاتی ہے۔
پاکستان میں صحافت پہلے ہی دباؤ، عدم تحفظ، اور محدود وسائل کے دور سے گزر رہی ہے۔ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق پاکستان 2024 میں 180 ممالک میں سے 150ویں نمبر پر رہا۔ ایسے میں ایک نئی قسم کے ڈیجیٹل اینکرز سامنے آئے ہیں—نہ کسی صحافتی تربیت کے حامل، نہ کسی ضابطے یا ادارے کے پابند۔ صرف ایک کیمرہ، یوٹیوب چینل، اور اشتعال انگیز بیان کافی ہے کہ لاکھوں افراد کو متاثر کیا جا سکے۔ ان افراد کا مقصد نہ عوامی آگاہی ہے، نہ سچ کی تلاش—بلکہ صرف زیادہ ویوز، سبسکرائبرز اور اشتہاری آمدن کا حصول۔ کئی چینلز تو کھلم کھلا جھوٹ، سازشی نظریات، اور اداروں کے خلاف نفرت انگیز بیانیے پھیلا رہے تھے۔ کچھ افراد، جو پہلے مرکزی دھارے کے صحافی تھے، اب یوٹیوب پر منتقل ہو کر عوامی جذبات کو بھڑکانے کے ماہر بن چکے ہیں۔
ان میں سے کئی یوٹیوبرز اب ملک سے باہر مقیم ہیں، اور پر اسرار انداز میں ملک چھوڑ چکے ہیں—یا شاید نکلوائے گئے ہیں۔ کچھ نے بیرونِ ملک سیاسی پناہ حاصل کی ہے اور اب وہیں سے ایسا مواد نشر کر رہے ہیں جو پاکستان مخالف قوتوں کے بیانیے سے حیرت انگیز حد تک ہم آہنگ ہوتا ہے۔ ان ویڈیوز میں اکثر مبہم “ذرائع” کا حوالہ دیا جاتا ہے جن کا کوئی ثبوت یا وجود نہیں ہوتا۔ ان کا مقصد صرف سنسنی پھیلانا، اشتعال پیدا کرنا، اور عدم استحکام کو فروغ دینا ہوتا ہے۔
اس تمام صورتِ حال میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا طبقہ نوجوان نسل ہے، جو روایتی میڈیا سے بدظن ہو کر یوٹیوب، فیس بک اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز کو خبری ذرائع کے طور پر استعمال کرنے لگی ہے۔ مگر ان پلیٹ فارمز کا نظام سنجیدہ صحافت کو نہیں، بلکہ سنسنی خیزی اور جذباتی تماشے کو انعام دیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سچ اور جھوٹ، تحقیق اور افواہ، تجزیے اور فتنہ انگیزی کے درمیان تمیز ختم ہوتی جا رہی ہے۔
ناقدین کا مؤقف ہے کہ ان چینلز پر پابندیاں آزادیِ اظہار کو دبانے کی کوشش ہیں۔ یقیناً کوئی بھی باشعور شخص شخصی آزادیوں پر اندھی پابندی کی حمایت نہیں کر سکتا۔ مگر یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ دنیا کی ہر مہذب اور جمہوری ریاست میں آزادیِ اظہار کو ریاستی سالمیت، قومی سلامتی اور عوامی نظم و ضبط کے تابع سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ، جرمنی، بھارت اور برطانیہ جیسے ممالک میں بھی ایسے قوانین موجود ہیں جو نفرت انگیزی، گمراہ کن معلومات اور ریاست مخالف مواد پر کارروائی کی اجازت دیتے ہیں۔ پاکستان کا حالیہ اقدام اسی عالمی اصول کے تحت ایک قابل فہم اور ضروری قدم ہے، بشرطیکہ اسے شفاف، قانونی، اور عدالتی نگرانی کے تحت انجام دیا جائے۔
ریاست پر لازم ہے کہ وہ ایسا کوئی بھی اقدام صرف قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے، سیاسی انتقام سے بالاتر ہو کر کرے تاکہ آزاد رائے دہی اور جائز تنقید کے حق کو تحفظ حاصل رہے۔ دوسری طرف، ان یوٹیوبرز کو بھی اپنے کردار کا سنجیدہ جائزہ لینا ہو گا—کیا وہ واقعی اصلاح چاہتے ہیں یا صرف شہرت، پیسہ اور سیاسی مقاصد کے لیے فتنہ انگیزی کو اپنا ہتھیار بنا چکے ہیں؟ اگر انہیں یقین ہے کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے تو عدالتیں موجود ہیں، قانون کے دروازے کھلے ہیں۔ لیکن اگر وہ صرف شور، ہنگامہ، اور مظلومیت کا مصنوعی بیانیہ گھڑتے رہیں گے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ ان کا مقصد اصلاح نہیں، انتشار ہے۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بیانیہ اس وقت سب سے طاقتور ہتھیار بن چکا ہے۔ اگر ریاست طاقت کے زور پر خاموشی مسلط کرے تو یہ جبر ہے، لیکن اگر افراد یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز کو استعمال کر کے سچ کی آڑ میں جھوٹ، فتنہ اور نفرت کو فروغ دیں تو یہ بھی ناقابلِ قبول ہے۔ تنقید اور اختلاف جمہوریت کا حسن ضرور ہیں، مگر جھوٹ، بہتان اور ریاست دشمنی آزادی نہیں بلکہ بد نیتی اور فتنہ گری ہے۔
پاکستان آج ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں اسے آزادیِ اظہار اور قومی سلامتی کے درمیان ایک نیا توازن پیدا کرنا ہے۔ یہ توازن تب ہی ممکن ہے جب میڈیا خواندگی کو فروغ دیا جائے، صحافتی اخلاقیات کو بحال کیا جائے، سائبر قوانین پر سنجیدگی سے عمل درآمد ہو، اور ہر شخص، چاہے وہ صحافی ہو یا یوٹیوبر، اپنے الفاظ کے اثرات کا خود ذمہ دار ہو۔
ان چینلز پر پابندی محض ایک انتظامی فیصلہ نہیں بلکہ ایک انتباہ ہے، کہ اگر آزادی کو بے لگام چھوڑ دیا جائے تو وہ آزادی نہیں، تباہی بن جاتی ہے۔ اور اس تباہی سے بچنا صرف ریاست کی نہیں، ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اگر ہم خود سچ اور جھوٹ، خیر اور شر میں تمیز کرنا سیکھ لیں، اور ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کریں جو نفرت، جھوٹ اور انتشار کو فروغ دیتے ہیں، تو پھر نہ عدالت کو حرکت میں آنا پڑے گا، نہ حکومت کو پابندیاں لگانی ہوں گی، کیونکہ سچ خود بولتا ہے، اور جھوٹ خود مر جاتا ہے۔