GHAG

مولانا خان زیب کی شہادت اور سیکورٹی صورتحال

مولانا خان زیب کی شہادت اور سیکورٹی صورتحال

خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں دہشت گرد کارروائیاں نہ صرف جاری ہیں بلکہ اہم شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی طوالت اختیار کرگیا ہے ۔ گزشتہ روز اے این پی کے علماء چیپٹر کے سربراہ اور ممتاز سماجی شخصیت مولانا خان زیب کو باجوڑ کے علاقے خار کے قریب مسلح افراد نے گولیاں مار کر شہید کردیا ۔ اس واقعے میں ایک پولیس اہلکار اور ایک اور بندے کی شہادت بھی واقع ہوئی جبکہ تین چار افراد شدید زخمی ہوئے جن کو پشاور منتقل کیا گیا ۔ کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی گروپ جماعت الاحرار نے باضابطہ طور پر اس واقعے یا حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے ۔ جماعت الاحرار کے اہم کمانڈر سربکف مہمند نے تو اس حملے کی نہ صرف مذمت کی بلکہ رابطے پر بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھیوں کو مولانا خان زیب کی شہادت پر دکھ پہنچا ہے ۔ ان کے بقول جو بھی امن اور حقوق کی بات کرتا ہے اسے نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اگر ایک طرف مختلف علاقوں میں فوجی کارروائیاں جاری ہیں تو دوسری جانب اس قسم کے عوامی لوگوں کو بھی راستے سے ہٹایا جارہا ہے ۔

بعض ذرائع کے مطابق اس حملے میں باجوڑ اور بعض دیگر علاقوں میں موجود داعش خراسان ملوث ہوسکتی ہے تاہم تادم تحریر داعش سمیت کسی نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے ۔ مولانا خان زیب کو ایسے وقت میں شہید کردیا گیا جب وہ ایک پاسون کی تیاری کے سلسلے میں رابطہ عوام پر تھے ۔ اس سے چند روز قبل اسی علاقے میں اے سی باجوڑ کو تین دیگر ساتھیوں کے ہمراہ نشانہ بنایا گیا تو چند روز قبل کالعدم ٹی ٹی پی نے تحصیل ماموند میں ایف سی کی گاڑی پر حملہ کرکے اسے نذر آتش کردیا اور اسلحہ چھین لیا ۔ جس کے ردعمل میں فورسز نے کئی گھنٹوں تک باجوڑ کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کیں ۔

دوسری جانب کالعدم ٹی ٹی پی نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں ان حملوں کی تفصیلات موجود ہیں جو کہ گزشتہ ایک ششماہی کے دوران کیے گئے ہیں ۔ ان تفصیلات کے دوران دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی نے اس نے گزشتہ چھ مہینوں کے دوران 1327 حملے کیے ہیں جس کے نتیجے میں بقول ٹی ٹی پی 2000 سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں اور ریاست کے حامیوں ، ملازمین کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اس رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان چھ مہینوں کے دوران خیبرپختونخوا کے تقریباً 20 اضلاع میں حملے کیے گئے ہیں ۔ جن علاقوں میں سب سے زیادہ کارروائیاں کی گئیں ان میں بالترتیب جنوبی وزیرستان ، شمالی وزیرستان ، خیبر، ڈی آئی خان ، چترال ، ٹانک ، بنوں ، لکی مروت ، باجوڑ اور کرم سرفہرست ہیں ۔ اس سے جاری جنگ کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

اسی پس منظر میں اگر ایک طرف وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ صوبائی حکومت اس صورتحال پر مشاورت کے لیے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے جارہی ہے تو دوسری طرف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ امن کے قیام کے لیے ریاست اور عوام کے خلاف کارروائیاں کرنے والے تمام عناصر کو کچلا جائے گا ۔ اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ بھارت پراکسیز کے ذریعے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی سازشوں میں مصروف اور ملوث ہے تاہم پاکستان کی مسلح افواج ان تمام سازشوں کو ناکام بنانے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے ۔

اس تمام تر تشویشناک منظر نامے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری طور پر صوبائی ایپکس کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے اور تمام اسٹیک ہولڈرز ایک مشترکہ لائحہ عمل پر مشاورت کریں۔ اس مجوزہ اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا جائے تاکہ ایک جامع قومی پالیسی کی از سر نو تشکیل کے تمام امکانات کا جائزہ لیا جائے ۔ اس سلسلے میں اس امر کی بھی اشد ضرورت ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کا ازسرنو جائزہ لے کر اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔

(جولائی 11، 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts