بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
دہائیوں سے جلتا ہوا بدقسمت پختونخوا اب بھی سلگ رہا ہے ، یہ آگ ہے کہ بجھنے کا نام نہیں لے رہی۔ دہشت گردوں نے ایک بار پھر امن، محبت، عقل و فہم کی ایک توانا آواز ، مولانا خان زیب شہید ، کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔ وہ ایک ترقی پسند مذہبی عالم اور اصولوں پر ڈٹے ہوئے سیاسی کارکن تھے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی سچ، انصاف اور شعور کی سربلندی کے لیے وقف کر دی۔
ان کا قتل محض کوئی ذاتی سانحہ یا علاقائی واقعہ نہیں، بلکہ پُرامن اور اصلاح پسند پشتون قیادت کے منظم خاتمے کی ایک اور دلخراش کڑی ہے۔ ان کی شہادت ہمیں اُن عظیم شخصیات کی یاد دلاتی ہے جنہوں نے شدت پسندی، جبر، اور بےیقینی کے خلاف ڈٹ کر امن، جمہوریت، اور ترقی کا راستہ اپنایا۔
ایسے امن پسند پشتون رہنماؤں اور اہلِ علم کی ایک طویل فہرست موجود ہے جنہیں صرف اپنے خیالات، مزاحمتی نظریات، اور امن کے پیغام کی پاداش میں قتل کیا گیا۔ ان میں سے کئی نے ریاستی جبر، مذہبی انتہا پسندی، اور متشدد نظریات کے خلاف بےخوف آواز بلند کی، اور اس کی بھاری قیمت چکائی۔ ان رہنماؤں کا واحد “قصور” یہ تھا کہ انہوں نے خوف کے سائے میں بھی مصالحت، علم، اور انصاف کی بات کی۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پشتونوں کا اجتماعی خواب آج بھی تشنۂ تعبیر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پشتون، اپنی بہادری، ثقافت اور قربانیوں کے باوجود، دہائیوں سے ایسے تنازعات میں جھونکے گئے ہیں جو ان کے نہیں تھے۔
خاص طور پر افغان جنگ اور اس کے بعد شدت پسندی کی لہر میں، پشتون نہ صرف ریاستی پالیسیوں کا نشانہ بنے بلکہ بین الاقوامی طاقتوں کے ہاتھوں بھی مسلسل استعمال ہوتے رہے۔ پاکستان کے پختونوں سے لے کر افغانستان کے ستم رسیدہ پختونوں تک، پشتون خون بارہا اُن منصوبوں کی نذر ہوا جن کا فائدہ ہمیشہ اُنہی قوتوں کو پہنچا، جنہوں نے کبھی بھی پشتونوں کے مستقبل کو اپنی ترجیح نہیں بنایا۔
لیکن سب سے تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس زوال میں خاموشی، جذباتی وابستگی، اور ناسمجھی کے سبب پشتون خود بھی شریک رہے ہیں۔ غیرت، روایات یا مذہبی جذبے کے نام پر وہ ایسے راستوں پر چلتے رہے جو آخرکار ان کے لیے اندھیرے، غربت اور پسماندگی کا باعث بنے۔ آج جب اقوام سائنس، تعلیم اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ترقی کی دوڑ میں شامل ہو چکی ہیں، پشتون علاقے اب بھی بنیادی سہولیات سے محروم، تعلیمی اداروں سے خالی، اور نظام کی کمزوریوں سے دوچار ہیں۔
مگر آج کے حالات پہلے سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ نوجوان نسل، جو کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتی ہے، شدید بے سمتی کا شکار ہے۔ جہاں انہیں شعور، تعلیم اور تعمیر کی طرف راغب ہونا چاہیے تھا، وہاں وہ ٹک ٹاک، افواہوں، اور سطحی ڈیجیٹل مواد میں گم ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی موجودگی شور تو بہت کرتی ہے، مگر اکثر دلیل سے خالی، سمت سے بےخبر، اور فکری سطح پر کمزور نظر آتی ہے۔ شخصیت پرستی، بحث برائے بحث، اور
سچ سے فرار ایک عام رجحان بنتا جا رہا ہے۔
یہ سب اُس خلاء کا نتیجہ ہے جو قیادت کے میدان میں پیدا ہو چکا ہے۔ آج پشتون معاشرہ قیادت کے ایک گہرے بحران سے دوچار ہے ، ایسا بحران جو صرف سیاسی نہیں، بلکہ فکری، اخلاقی اور تعلیمی نوعیت کا بھی ہے۔ جو قیادت موجود ہے، وہ اکثر جذباتی، ردِعمل پر مبنی، اور وقتی نعرہ بازی میں مصروف نظر آتی ہے۔ ترقی، تعلیم، پالیسی یا عوامی بہبود کا کوئی طویل المدتی منصوبہ دکھائی نہیں دیتا۔
پشتونوں نے مختلف ادوار میں مختلف رہنماؤں سے امیدیں وابستہ کیں اور ان کے پیچھے چل پڑے، لیکن اکثر ان رہنماؤں نے ذاتی ایجنڈوں یا بناوٹی، خالی خولی نعروں کے سوا کچھ نہ دیا، جس نے قوم کو مزید مایوسی میں دھکیل دیا۔
حقیقی قیادت وہ ہوگی جو ریاست سے تصادم کے بجائے ریاست کے اندر رہ کر پشتونوں کے حقوق، ترقی اور نمائندگی کے لیے سنجیدہ، مستقل مزاج اور فکری طور پر واضح کوشش کرے۔ ہمیں ایسے رہنما درکار ہیں جو دل سے محب وطن ہوں، عوام کے خیرخواہ ہوں، اور نفرت کے بجائے تدبیر سے بات کریں۔
ایسی قیادت اندر سے ہی ابھرنی چاہیے، ایسے افراد جو زمینی حقائق سے آگاہ ہوں، اپنی تہذیب سے جڑے ہوں، مگر جدید دنیا کی زبان بھی سمجھتے ہوں۔ وہ افراد جو تعلیم، مساوات، قانون کی بالادستی، اور جمہوری اصولوں پر یقین رکھتے ہوں۔ جو امن، اصلاح اور ادارہ سازی کے داعی ہوں۔ ایسے لوگ جو نوجوانوں کو نعرے نہیں، وژن دیں؛ جو اشتعال نہیں، شعور دیں۔
مگر قیادت تنہا کچھ نہیں کر سکتی۔ قوم کو خود بھی جاگنا ہوگا۔ یہ بیداری نوجوانوں سے شروع ہونی چاہیے۔ انہیں مطالعہ، تفکر اور مکالمے کی طرف لوٹنا ہوگا۔ انہیں اپنی تاریخ کو ازسرِ نو پڑھنا ہوگا، نہ صرف ان کہانیوں کو جو معرکوں پر مبنی ہیں، بلکہ ان جدوجہدوں کو جو تعلیم، مساوات اور عدل کے لیے لڑی گئیں۔ انہیں اختلاف کے آداب سیکھنے ہوں گے، تنظیم سازی کا فن اپنانا ہوگا، اور خوابوں کو عمل میں ڈھالنے کی مشق کرنی ہوگی۔
پشتون معاشرے کو اب ایسے ادارے تشکیل دینے ہوں گے جو مفکر، سائنس دان، معلم، اور سماجی رہنما پیدا کریں۔ ہمیں دوبارہ شعروادب کو زندہ کرنا ہوگا، میڈیا اور تعلیم کو آزاد کرنا ہوگا، اور نوجوانوں میں تنقیدی شعور بیدار کرنا ہوگا۔ ہمیں اندھی تقلید چھوڑ کر اپنی “غیرت” کی نئی تعریف کرنا ہوگی ، وہ غیرت جو نعرے میں نہیں، خدمت میں ہو؛ جو شور میں نہیں، شعور میں ہو۔
یہ کوئی خواب نہیں، بلکہ ایک ممکن حقیقت ہے ، دنیا کی کئی قومیں جنگوں، شکستوں اور بحرانوں سے نکل کر خود کو دوبارہ تعمیر کر چکی ہیں۔ پشتون بھی یہ سب کر سکتے ہیں، اگر وہ اپنے رویوں، ترجیحات اور سوچ کو بدلنے پر آمادہ ہوں۔ اگر وہ سچائی کا سامنا کریں، خود احتسابی اختیار کریں، اور اجتماعی ذمے داری کو محسوس کریں۔
مولانا خان زیب کی شہادت کو محض ایک لمحۂ افسوس نہ بننے دیں۔ یہ ایک فیصلہ کن موڑ بنے، سوچنے، جاگنے، اور راستہ بدلنے کا۔ یہ وقت آنسو پونچھنے کا نہیں، بلکہ سمت درست کرنے کا ہے۔ ان کی زندگی اس بات کا ثبوت تھی کہ مذہب اور ترقی پسندی، روایت اور تجدد، حب الوطنی اور اصلاح ، سب ایک ساتھ چل سکتے ہیں۔
ان کی میراث کو زندہ رکھنے کا راستہ صرف جذباتی تقریروں میں نہیں، بلکہ عملی اقدامات، اجتماعی بیداری، اور نسل نو کی فکری تربیت میں ہے۔بےشک، اپنی تباہیوں اور ان سے کچھ نہ سیکھنے کی تاریخ کو دیکھ کر مایوسی ضرور ہوتی ہے ، لیکن پھر بھی امید باقی ہے۔ شاید کبھی کچھ سیکھ لیں، شاید کبھی عقل، فہم، اور شعور سے کام لے سکیں… کہ آخرکار امید ہی پر تو دنیا قائم ہے۔
(12 جولائی 2025)