GHAG

پاکستان میں علماء کرام کی ٹارگٹ کلنگ

تحریر: اے وسیم خٹک

پاکستان میں علما کرام کو ٹارگٹ کرنا کوئی نیا عمل نہیں، مگر گزشتہ ایک سال کے دوران خیبرپختونخوا میں جس تسلسل کے ساتھ دینی شخصیات کو شہید کیا گیا، وہ لمحۂ فکریہ ہے۔ مئی 2024 میں کرک میں مفتی ذیشان کو شہید کیا گیا، اسی ماہ مردان میں مولانا احمد سید کو نشانہ بنایا گیا، پھر ٹانک میں مولوی احسان اللہ کو گولی مار کر قتل کیا گیا۔ جون میں جنوبی وزیرستان میں مولانا مرزا جان زخمی ہوئے اور ہسپتال میں دم توڑ گئے۔ فروری 2024 میں نوشہرہ میں خودکش حملے میں مولانا حامد الحق شہید ہوئے۔ پشاور میں مفتی منیر شاکر اور مولانا اعجاز عابد بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔ جنوری 2025 میں قاضی ظہور کو قتل کیا گیا اور اب حالیہ دنوں میں باجوڑ میں مولانا خان زیب کو بھی شہید کر دیا گیا۔ ان تمام واقعات کا دردناک پہلو یہ ہے کہ ایک بھی مجرم کو ابھی تک سزا نہیں ملی۔

یہ تنہا واقعات نہیں، اس سے قبل بھی کئی معروف اور معتدل علما کو اسی طرح قتل کیا گیا۔ 2007 میں پشاور کے مشہور عالم دین مولانا حسن جان کو اس وقت شہید کیا گیا جب وہ شدت پسندی کے خلاف کھل کر بات کر رہے تھے۔ 2018 میں مولانا سمیع الحق کو راولپنڈی میں ان کے گھر پر بے دردی سے قتل کیا گیا۔ اسی طرح مولانا نقیب الرحمن، مولانا نور محمد، اور دیگر کئی علما بھی شدت پسندوں یا فرقہ وارانہ نفرت کا نشانہ بنے۔ بعض علما شدت پسندی، خودکش حملوں اور تکفیری سوچ کے خلاف علمی و دینی موقف رکھتے تھے، جو شدت پسند گروہوں کے لیے ناقابلِ برداشت بن گیا۔

اس تسلسل کے پیچھے کئی ممکنہ وجوہات ہیں۔ شدت پسند گروہ ایسے علما کو راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں جو ان کے نظریات کی مخالفت کرتے ہیں۔ بعض اوقات فرقہ واریت بھی ایسے واقعات کی بنیاد بنتی ہے۔ ریاستی سطح پر اس مسئلے کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جو دی جانی چاہیے تھی۔ اکثر قاتل آزاد گھومتے رہے اور ایف آئی آرز محض کارروائی کی خانہ پُری بن کر رہ گئیں۔ ان واقعات میں بیرونی عناصر کے ملوث ہونے کے امکانات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ دینی قیادت کو ختم کرنا پاکستان کی فکری بنیادوں کو ہلانے کے مترادف ہے۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ میڈیا اور سوسائٹی کا ردعمل بھی ماند پڑ چکا ہے۔ اگر کسی سیاسی شخصیت یا فنکار کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو کئی دنوں تک میڈیا اس پر گفتگو کرتا ہے، مگر علما کی شہادت کی خبر زیادہ سے زیادہ ایک نیوز ٹِکر یا چند لمحوں کی بریکنگ نیوز تک محدود رہتی ہے۔ یہ رویہ معاشرے میں دینی رہنماؤں کی اہمیت کو کم کر رہا ہے۔

ریاست، معاشرہ، علما اور تعلیمی ادارے اگر اس مسئلے کو سنجیدہ نہ لیں تو اس کا نقصان صرف دینی طبقے کو نہیں بلکہ پوری قوم کو ہوگا۔ علما معاشرے کی رہنمائی، اصلاح اور فکری استحکام کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اگر وہ مسلسل خوف، عدم تحفظ اور قتل و غارت کا شکار ہوتے رہے تو وہ خلا پیدا ہوگا جسے شدت پسند پر کر دیں گے۔ ریاستی اداروں کو علما کے تحفظ کو ترجیح دینی چاہیے، قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے اور علما کی آواز کو محفوظ ماحول فراہم کرنا چاہیے تاکہ وہ امن، اصلاح اور فہم کا پیغام جاری رکھ سکیں۔

یہ مسئلہ کسی ایک مکتبِ فکر کا نہیں، بلکہ پوری امتِ مسلمہ کا ہے۔ ہمیں رنگ، فرقہ اور مسلک سے بالاتر ہو کر اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ علم، دعوت اور اصلاح کی راہ میں شہید ہونے والے علما کی قربانیوں کو خراجِ تحسین دینے کا اصل طریقہ یہی ہے کہ ہم ان کی فکر کو زندہ رکھیں، اور ان کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے متحد ہو جائیں۔

(13 جولائی 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts