وفاقی حکومت نے تاریخی پس منظر رکھنے والی خیبرپختونخوا بیسڈ فورس فرنٹیئر کانسٹبلری کو وفاقی ادارہ بنانے کا اعلان کردیا ہے اور اس مقصد کے لیے ایک آرڈی نینس جاری کی گئی ہے ۔ اس آرڈی نینس کے تحت ایف سی اب نہ صرف یہ کہ وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام ہوگی بلکہ اس کے افسران اور اہلکاروں سے چاروں صوبوں کے علاؤہ کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی کام لیا جائے گا ۔ اس اقدام پر سیکیورٹی ماہرین ، سابق بیوروکریٹس اور سیاسی قائدین نہ صرف حیرت کا اظہار کررہے ہیں بلکہ وہ تنقید بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اس ضمن میں خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کا تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے جو کہ حیرت کی بات ہے اور فی الحال اس خاموشی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یا تو صوبائی حکومت اس فیصلے سے متفق ہے یا حسب معمول لاتعلقی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔
سابق وزیر داخلہ اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے ایک بیان میں اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایف سی نے ایک سرحدی فورس کے طور پر ماضی میں قبائلی علاقوں کی سیکیورٹی صورتحال کے تناظر میں بہت کلیدی کردار ادا کیا ہے اور حالیہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔ ان کے بقول یہ خالصتاً صوبائی ادارہ سمجھا جاتا رہا ہے ۔
اسی طرح سابق سیکرٹری داخلہ ڈاکٹر اختر علی شاہ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ایف سی کے قیام کا مقصد خیبرپختونخوا کے سرحدی علاقوں کی دیکھ بھال کرنا تھا اور اس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس میں مقامی پشتون قبائل کے کو بھرتی کیا جاتا تھا فاٹا مرجر کے بعد اس کی اہمیت اور جاب ڈومین کے بارے میں سوالات اٹھنے لگے تھے مگر اس کو وفاقی ادارہ بنایا جائے گا یہ توقع کسی کو نہیں تھی ۔ ان کے بقول ایسا کرنے کی بجائے بہتر یہ تھا کہ ایف سی کو خیبرپختونخوا پولیس میں ضم کیا جاتا ۔ حالیہ فیصلہ سے جہاں ایک کنفیوژن پیدا ہوئی ہے وہاں اس سے انتظامی مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں اور غیر ضروری اخراجات میں مزید اضافے کا راستہ بھی ہموار ہوگیا ہے ۔
اس تمام تر پس منظر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے اور اگر وفاقی حکومت نے کوئی جامع پلان ذہن میں رکھ کر یہ فیصلہ کیا ہے تو اس سے متعلق صوبائی حکومت اور صوبے کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے ۔
(جولائی 17، 2025)