GHAG

غیرت کے نام پر قتل: غیرت نہیں، جرم اور جہالت ہے

غیرت کے نام پر قتل: غیرت نہیں، جرم اور جہالت ہے

بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
بدقسمت بلوچستان، جو مدت سے روزانہ کسی نہ کسی پرتشدد کارروائی کا شکار ہے، کبھی ایک قسم کی دہشت گردی تو کبھی دوسری کی۔ اس بار پھر نام نہاد غیرت اور جھوٹی انا کی دہشت گردی کا نشانہ بنا، جہاں جون 2025 میں ایک نوجوان جوڑے کو گولیاں مار کر بےدردی سے قتل کر دیا گیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو اور خبروں کے مطابق، اس نوجوان جوڑے کو، جنہوں نے اپنی پسند سے شادی کی تھی، بیس سے زائد مسلح افراد نے پہاڑوں میں لے جا کر بے رحمی سے مار ڈالا۔ صرف گولیاں نہیں چلیں ۔ ایک مکمل منظر فلمایا گیا، تاکہ دنیا دیکھے کہ یہاں محبت کرنے کی سزا موت ہے۔ یہ حادثہ نہیں تھا؛ یہ ایک پیشگی طے شدہ، اجتماعی سفاکی تھی، جسے قبائلی جرگے کی منظوری اور “غیرت” کا مصنوعی لبادہ حاصل تھا۔

اس جوڑے کا گناہ کیا تھا؟ صرف یہ کہ انہوں نے جبر اور روایت سے انکار کر کے اپنی مرضی سے نکاح کیا۔ کوئی قانونی چارہ جوئی، کوئی شرعی شکایت، کوئی سماجی مقدمہ نہیں ، صرف بندوق، زہر آلود روایات، اور اجتماعی خاموشی۔ لڑکی کے ہاتھ میں قرآن تھا۔ اس کی آواز میں خوف کم، یقین زیادہ تھا، جب وہ کہتی ہے ۔(سات قدم میرے ساتھ چلو، پھر گولی مار دینا۔ )
یہ الفاظ اس معاشرے کے منہ پر ایسی چپت ہیں، جو نکاح کی نیت رکھنے والوں کو بھی مصلحت سکھاتا ہے، اور قاتلوں کو غیرت کا خطاب دیتا ہے۔

یہ محض دو انسانوں کی جان نہیں گئی ، یہ محبت، خودمختاری، آئینی حق، اور مذہب کے اصل مفہوم کا قتل تھا۔ وہ غیرت جو حیا اور شرافت کے ساتھ جڑی ہوتی ہے، اسے یہاں سفاکی اور حیوانیت سے بدل دیا گیا۔

اسلام، جس کے نام پر ایسے مظالم کو جائز ٹھہرایا جاتا ہے، اس بربریت سے مکمل براءت اختیار کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے
جس نے ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔) – المائدہ 5:32))

نبی ﷺ نے نکاح کو عورت کی رضا سے مشروط کیا، قبائلی غیرت کے نام پر قتل کو جاہلیت قرار دیا، اور بیٹیوں کو زندگی کا حق عطا فرمایا۔ اس کے بعد بھی جو لوگ دین کا نام لے کر ایسے جرائم کرتے ہیں، وہ نہ دیندار ہیں، نہ غیرتمند ، وہ صرف اپنی جہالت اور بزدلی کا دفاع کرتے ہیں۔

2016 میں پاکستان نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون تو بنایا، لیکن اس پر عمل درآمد آج بھی طاقتوروں کے قدموں تلے دبا ہوا ہے۔ بلوچستان جیسے علاقوں میں ریاست کا وجود کاغذ تک محدود ہے۔ پولیس بےاختیار ہے، عدالتیں خاموش، اور جرگے بےقانونی کو روایت کا نام دے کر فیصلے سناتے ہیں۔ یہاں بندوق، تاثر، اور طاقت ور سب کچھ چلاتے ہیں ، اور عورت کی خودمختاری سب سے بڑا جرم بن جاتی ہے۔

ہم کب تک ویڈیوز وائرل ہونے پر غم کا اظہار کرکے پھر خاموش ہو جائیں گے؟ کب تک مقتولین کے کردار پر سوال اٹھا کر قاتلوں کو عزت دار بناتے رہیں گے؟ کب تک مذہب کی آڑ میں حیوانیت کو تسلیم کرتے رہیں گے؟ کب تک قرآن کو اٹھانے والے مظلوم اور گولیاں برسانے والے غالب کہلاتے رہیں گے؟

ریاست اگر سنجیدہ ہے تو اسے محض ایک گرفتاری پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر موجود ویڈیو کو ناقابلِ تردید شہادت مانا جائے، تمام ملوث افراد کو دہشتگردی کے قانون کے تحت گرفتار کر کے تیز رفتار عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں، اور سزا ایسی ہو جو آنے والی نسلوں کے لیے مثال بنے۔ اس قسم کے جرگوں پر مکمل پابندی لگائی جائے، اور ان علاقوں میں بااختیار، آزاد اور اصول پرست پولیس اور دیگر انتظامی افسران تعینات کیے جائیں جو با اثر افراد کے دباؤ کو خاطر میں نہ لائیں۔

علمائے کرام پر بھی فرض ہے کہ وہ محض مذمتی بیانات سے آگے بڑھیں۔ اپنے خطبات میں اس ظلم کو فتنے اور کبیرہ گناہ کے طور پر واضح کیا جائے۔ تعلیمی اداروں میں ایسے اسباق شامل کیے جائیں جو نوجوانوں کو سکھائیں کہ عزت کیا ہے، اور غیرت کے نام پر قتل دراصل بزدلی کا دوسرا نام ہے۔ میڈیا محض خبر دینے پر اکتفا نہ کرے بلکہ آگاہی، مکالمہ، اور سماجی تربیت کے لیے مستقل مہمات کا آغاز کرے۔

اور ہم؟ ہم کب جاگیں گے؟ کیا ہم اس وقت بھی خاموش رہیں گے جب کل کو کوئی اور لڑکی، قرآن ہاتھ میں لیے، زندگی کی بھیک مانگے گی؟ کیا ہم اس وقت بھی صرف سوشل میڈیا پر تبصرہ لکھ کر آگے بڑھ جائیں گے؟ یا ہم بالآخر یہ ماننے کو تیار ہو چکے ہیں کہ عورت کا اختیار عزت کے خلاف نہیں، بلکہ اسی کا جزو ہے؟

پہاڑوں میں قتل ہونے والا یہ جوڑا دفن ہو چکا ہے۔ لیکن ان کے سوال، ان کی چیخیں اور ان کی آنکھوں میں باقی رہ جانے والی دعا اب زندہ رہے گی ۔ جب تک ہم ان سوالوں کا سامنا نہیں کرتے، یہ جرم دہراتے رہیں گے۔ اور اگر ہم پھر خاموش رہے، تو ہم سب قاتل ہوں گے ، خواہ ہمارے ہاتھ میں بندوق نہ ہو، مگر ہماری خاموشی یقیناً خون آلود ہو گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts