GHAG

سینیٹ ٹکٹس: طبقاتی غلبہ اور سیاسی موقع پرستی کا مظہر

سینیٹ ٹکٹس: طبقاتی غلبہ اور سیاسی موقع پرستی کا مظہر

ڈاکٹر سید اختر علی شاہ

سیاسی جماعتوں کی جانب سے سینیٹ کے ٹکٹس مفاد پرستوں اور ارب پتیوں کو دینے کا حالیہ رجحان اس امر کا واضح اظہار ہے کہ اب نظریے یا جدوجہد سے زیادہ ذاتی مفاد کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ یہ رویہ ہمارے سیاسی نظام کی اس گہری خرابی کو عیاں کرتا ہے جس میں اصولوں کے بجائے موقع پرستی اور مفاد پرستی کو فروغ حاصل ہے۔ اس طرزِ عمل نے نہ صرف سیاسی تحریکوں کی اخلاقی بنیادوں کو کمزور کیا ہے بلکہ عوام میں سیاسی نظام سے بدظنی اور بیگانگی کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

یہ رجحان کارل مارکس کے اس نظریے کی تصدیق کرتا ہے جس کے مطابق ریاست ایک غیر جانبدار ادارہ نہیں بلکہ بالادست طبقے کی طاقت اور مراعات کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی و معاشی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی ترقی کا پیمانہ قابلیت، قربانی یا نظریاتی وابستگی نہیں بلکہ دولت اور اثر و رسوخ بن چکا ہے۔

اب ٹکٹوں کی تقسیم میں ’’چمک‘‘ کا عمل دخل بڑھ چکا ہے — جس سے وہ افراد فائدہ اٹھا رہے ہیں جو یا تو سرمایہ دار ہیں یا موقع پرست۔ اس طرز سیاست نے ان کارکنوں اور نظریاتی افراد کو کنارے لگا دیا ہے جنہوں نے سالہا سال پارٹیوں کی جدوجہد میں حصہ لیا اور قربانیاں دیں۔

یوں ایک ایسا سیاسی طبقہ ابھر کر سامنے آیا ہے جو معاشی لحاظ سے تو مضبوط ہے لیکن نظریاتی طور پر کھوکھلا اور غیر مربوط ہے۔ ان کے نزدیک سیاسی جماعت صرف اقتدار کا ذریعہ ہے، نہ کہ تبدیلی یا اصلاحِ احوال کا وسیلہ۔ ایسے حالات میں ملک میں کوئی حقیقی تبدیلی صرف متوسط، نچلے متوسط اور محنت کش طبقات سے آ سکتی ہے — وہ طبقات جو غربت، بےروزگاری، اور محرومی کا سامنا روزمرہ زندگی میں کرتے ہیں۔

تاہم یہ تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک یہ طبقات محض افراد کے گرد نہیں بلکہ نظریات اور اجتماعی مفاد کے گرد منظم نہ ہوں۔ سیاسی شعور، طبقاتی آگاہی اور اصولوں پر مبنی تنظیم ہی اس نظام میں دراڑ ڈال سکتی ہے۔

اگر یہ بیداری نہ آئی، تو سیاست ہمیشہ سرمایہ داروں کا کھیل بنی رہے گی — اور عوام محض ووٹ دینے والے ہجوم کی حیثیت سے استعمال ہوتے رہیں گے، نمائندگی سے محروم اور تبدیلی سے دور۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts