وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ان کی صوبائی حکومت خیبرپختونخوا میں کہیں پر بھی ماضی کی طرح فوجی آپریشن کی اجازت نہیں دے گی اور یہ کہ ان کو قبائلی علاقوں میں ڈرون وغیرہ کے استعمال پر بھی خدشات لاحق ہیں ۔ سی ایم ہاؤس میں طلب کی گئی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماضی میں کیے گئے آپریشن نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے ہیں اور عوام بھی کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں اس لیے صوبائی حکومت کو کسی بھی ایسے اقدام سے قبل اعتماد میں لیا جائے ۔ وزیر اعلیٰ کے بقول صوبائی حکومت نے مختلف پارٹیوں اور شعبوں کی نمائندگی پر مشتمل اے پی سی اس لیے طلب کی تھی کہ صوبے کی سیکیورٹی صورتحال پر مشاورت کی جائے ۔
ماہرین اور تجزیہ کاروں نے وزیر اعلیٰ کے اس موقف پر مختلف الخیال آراء کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ علی امین گنڈا پور اور ان کی صوبائی حکومت کو انسداد دہشت گردی سے متعلق معاملات پر کنفیوژن کا سامنا ہے اور یہ کہ انہوں نے بدامنی کے خاتمے کے لیے پی ٹی آئی اور اپنی حکومت کے کسی روڈ میپ کا ذکر ہی نہیں کیا ہے جس کے باعث کہا جاسکتا ہے کہ اے پی سی میں کوئی خاص بات سامنے نہیں آئی ہے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق وزیر اعلیٰ نے جو دلائل دیے ہیں وہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو سے زیادہ پی ٹی آئی کے بیانیہ کی عکاسی کرتے ہیں ۔ بعض ماہرین نے تو سوشل میڈیا پر یہاں تک کہا کہ وزیر اعلیٰ نے وفاقی حکومت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے اقدامات پر باقاعدہ عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے جس کے باعث معاملات مزید پیچیدہ ہوگیے ہیں ۔
دوسری جانب مین سٹریم پولیٹیکل پارٹیز نے آل پارٹیز کانفرنس سے بائیکاٹ کیا جس کے باعث اس کی اہمیت میں کمی واقع ہوئی ۔ اے این پی ، پیپلز پارٹی ، جے یو آئی اور مسلم لیگ ن اے پی سی میں شریک نہیں ہوئی اور قابل ذکر پارٹیوں میں صرف جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی نے اس ایونٹ میں شرکت کی ۔
آج بروز جمعہ اے این پی کے زیر اہتمام پشاور میں قومی امن جرگہ کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں اہم قائدین سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نمایندوں کی شرکت متوقع ہے کیونکہ پارٹی کی تیاری کافی بہتر دکھائی دیتی ہے اور صوبائی صدر میاں افتخار حسین کی قیادت میں ایک ٹیم نے ہر جگہ خود جاکر لوگوں کو مدعو کیا ہے ۔ دوسری جانب جماعت اسلامی نے بھی ایک جرگے کا اعلان کر رکھا ہے ۔
اس تمام منظر نامے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے جنگ زدہ علاقوں میں آپریشن نہ کرے تو ان کے پاس دوسرا آپشن کیا رہ جاتا ہے ،؟ اس سوال کا جواب صوبائی حکومت سمیت کسی کے پاس نہیں ہے جبکہ دوسری جانب حملوں کی تعداد فورسز کی کارروائیوں کے باوجود بڑھتی جارہی ہے ۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز بلوچستان کے علاقے مستونگ میں ہونے والے اس آپریشن کی مثال دی جاسکتی ہے جس میں تین دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا تاہم آپریشن کو لیڈ کرنے والے 31 سالہ میجر اور ایک اور جوان شہید ہوگئے ۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران یہ پاک فوج کے تیسرے میجر ہیں جو کہ شہید ہوئے ہیں ۔ اس صورتحال سے نمٹنے کا طریقہ اور راستہ یہ ہے کہ سیکیورٹی صورتحال پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور محض تنقید یا خدشات کا رویہ ترک کیا جائے ۔
(جولائی 25، 2025)