بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
مغربی دنیا طویل عرصے سے خود کو انسانی حقوق، آزادیِ اظہار، اور مظلوموں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر پیش کرتی آئی ہے۔ امریکہ، برطانیہ، اور کینیڈا جیسے ممالک ان افراد کو سیاسی پناہ دیتے ہیں جو اپنے ممالک میں مبینہ مظالم یا خطرات کا سامنا کر رہے ہوں۔ ان کا مؤقف ہے کہ وہ جنیوا کنونشن 1951 اور اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے تحت ایک انسانی ہمدردی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ مگر جب یہی پناہ یافتہ افراد مغرب کی سرزمین کو اپنے وطن کے خلاف منفی پروپیگنڈے، سیاسی انتشار، اور گمراہ کن معلومات پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے: کیا یہ واقعی انسانی ہمدردی ہے، یا کسی بڑے سیاسی منصوبے کا حصہ؟
پاکستان اس تضاد کی ایک نمایاں مثال ہے۔ ایسے افراد، جن پر وطن میں سنگین فوجداری مقدمات ، مثلاً ریاست مخالف سرگرمیاں، اشتعال انگیزی، اور مالی بدعنوانی درج ہیں، وہ مغربی ممالک میں پناہ لے کر خود کو “جمہوری کارکن” اور “آزادیِ اظہار کے علَم بردار” بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر ریاستی اداروں، فوج، عدلیہ، اور حتیٰ کہ قومی سلامتی کے خلاف باقاعدہ مہمات چلاتے ہیں۔ ان کے بیانات اکثر سیاق و سباق سے ہٹے ہوئے، مبالغہ آمیز، اور عوامی جذبات کو مشتعل کرنے والے ہوتے ہیں۔
یہی رویہ اگر خود مغرب میں اپنایا جائے تو سخت قانونی ردِعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، امریکہ میں “Espionage Act” اور “Patriot Act” کے تحت قومی سلامتی یا خفیہ معلومات افشا کرنے والے افراد کے لیے سخت سزائیں مقرر ہیں۔ ایڈورڈ سنوڈن، جس نے امریکی نگرانی کے پروگرامز کو بے نقاب کیا، آج بھی روس میں جلاوطن ہے۔ جولین اسانج، جس نے وکی لیکس کے ذریعے حساس معلومات افشا کیں، برسوں سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے۔ برطانیہ میں بھی آزادیِ اظہار کی حدود واضح ہیں، خاص طور پر جب بات قومی سلامتی، نسلی منافرت یا نفرت انگیزی کی ہو۔
یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ مغرب میں انفرادی پناہ کے فیصلے خودمختار عدالتیں کرتی ہیں، اور ہر کیس کا جائزہ اس کی نوعیت کے مطابق لیا جاتا ہے۔ لیکن پھر سوال یہ ہے: جب قوانین اتنے سخت ہیں، تو کیا مغرب خود اپنے معیارات کو ترقی پذیر ممالک پر یکساں لاگو کرتا ہے؟
یہ تضاد اور واضح ہو جاتا ہے جب ہم مغرب کے رویے کو عالمی انسانی سانحات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 58,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ،جن میں بڑی تعداد بچوں، خواتین، صحافیوں اور طبی عملے کی ہے۔ (ماخذ: الجزیرہ، اقوامِ متحدہ انسانی حقوق کونسل رپورٹس)۔ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، اور اقوامِ متحدہ کی رپورٹس اس پر جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کر چکی ہیں۔ لیکن امریکہ، برطانیہ، اور دیگر مغربی ممالک یا تو خاموش ہیں، یا حملہ آور فریق کی حمایت میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ نہ کوئی اقتصادی پابندیاں، نہ شدید سفارتی دباؤ، اور نہ ہی کسی بین الاقوامی فورم پر مؤثر پیش رفت۔
اس کے برعکس، اگر کسی ترقی پذیر ملک میں میڈیا پر جزوی پابندی عائد ہو، یا کوئی سیاسی کارکن قانونی گرفتاری کا سامنا کرے، تو مغرب فوراً “آزادیِ اظہار” اور “جمہوری اقدار” کے نام پر شور مچا دیتا ہے۔ یہ دہرا معیار محض اخلاقی تضاد نہیں، بلکہ ایک منظم سیاسی پالیسی لگتا ہے ، جس کا مقصد مخصوص ریاستوں کو کمزور کرنا اور عالمی بیانیے پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا ہے۔
وہ افراد، جو مغرب میں بیٹھ کر اپنے وطن کے خلاف منظم نفرت انگیز مہمات چلاتے ہیں، نہ صرف ذاتی مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں، بلکہ ان کی سرگرمیاں ان مقامی شہریوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں جو اندرونِ ملک پرامن اور آئینی جدوجہد کے ذریعے اصلاحات کے خواہاں ہیں۔ اس سے قومی یکجہتی متاثر ہوتی ہے، بیرونِ ملک پاکستانی برادری تقسیم کا شکار ہوتی ہے، اور پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ مجروح ہوتی ہے۔
اب وقت ہے کہ مغربی ممالک اپنے اصولوں کو جغرافیائی اور سیاسی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے بجائے انہیں یکساں طور پر لاگو کریں۔ اگر آزادیِ اظہار واقعی ایک آفاقی حق ہے، تو اس کے ساتھ برابر کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریاں بھی ہونی چاہئیں۔ اگر انسانی حقوق واقعی غیرجانب دار اصول ہیں، تو مغرب کو فلسطین جیسے المناک سانحات پر بھی وہی شدت سے آواز بلند کرنی چاہیے، جو وہ دیگر مخصوص معاملات پر اٹھاتے ہیں۔
جب تک یہ دہرا معیار قائم رہے گا، مغرب کی پناہ کی پالیسیاں ایک “اخلاقی اصول” نہیں بلکہ ایک “سیاسی آلہ” سمجھی جائیں گی ، جو کچھ افراد کو تحفظ دیتی ہیں، اور بے شمار مظلوموں کو نظرانداز کر دیتی ہیں۔ اصل سوال یہ نہیں کہ مغرب انسانی حقوق پر یقین رکھتا ہے یا نہیں؛ بلکہ یہ ہے کہ کیا وہ ان کو انصاف کے ساتھ لاگو کرتا ہے یا صرف اپنے مفادات کی روشنی میں؟