GHAG

کی بورڈ وریئرز سوشل میڈیا طاقت بھی اور زہر بھی

کی بورڈ وریئرز سوشل میڈیا طاقت بھی اور زہر بھی

 عمرحیات یوسفزئی

آج ایک عام انسان کے ہاتھ میں موجود موبائل فون دراصل ایک پورا کیمرہ، ایک چینل اور ایک اخبار بن چکا ہے۔ اس طاقت کی بدولت خیبرپختونخوا اور پاکستان کی بہت سی خوبصورت اور قدرتی جگہیں دنیا کے سامنے آ رہی ہیں۔ نوجوان وی لاگز کے ذریعے ان علاقوں کی حسین وادیوں، جھیلوں اور ثقافت کو اجاگر کیا جا رہا ہے جس سے نہ صرف سیاحت کو فروغ مل رہا ہے بلکہ ملک کا مثبت اور خوبصورت امیج بھی دنیا کے سامنے پیش ہو رہا ہے۔ اس سے مقامی معیشت کو فائدہ پہنچتا ہے اور مقامی لوگوں کے روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں۔ کہیں دور دراز علاقے کی چھوٹی سی ویڈیو چند منٹوں میں ہی پورے پاکستان تو کیا، پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔

کسی کی فریاد، کسی کا دکھ، کسی کی کہانی یا کسی کا جرم سب کچھ لمحوں میں ہزاروں لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے، اور یہی وہ تبدیلی ہے جس نے عوام کو ایک نئی آواز دی ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے ان دور دراز علاقوں کے مسائل جہاں مین اسٹریم میڈیا کی پہنچ نہیں ، وہاں سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک مضبوط پلیٹ فارم فراہم کیا۔ مقامی لوگوں نے اپنی ویڈیوز، تصاویر اور پوسٹس کے ذریعے مسائل کو اجاگر کیا .ابھی حال ہی میں بلوچستان میں جو افسوسناک واقعہ پیش آیا، وہاں سوشل میڈیا کے ذریعے آواز اتنی طاقت سے اٹھی کہ مین اسٹریم میڈیا کو بھی مجبوراً اس پر توجہ دینی پڑی۔ اسی طرح میرے اپنے علاقے سوات کی مثال دیکھیں تو خوازہ خیلہ کے ایک مدرسے میں طالب علم پر تشدد کا واقعہ، اگر کسی نے ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر نہ ڈالی ہوتی تو شاید یہ ظلم کبھی سامنے ہی نہ آتا۔ یا وہ ذہنی معذور شخص جو دو ماہ تک لاپتہ رہا اور آخرکار سوشل میڈیا پر خبریں شیئر ہونے سے اس کا سراغ ملا، یہ سب اس طاقت کی زندہ مثالیں ہیں۔ پاک بھارت حالیہ تنازعے میں بھی سوشل میڈیا کا مجموعی کردار مثبت رہا جس نے ذمہ دارانہ رپورٹنگ اور متوازن پیغام رسانی کو فروغ دیا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر سوشل میڈیا کو صحیح مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ ایک بڑی مثبت قوت بن سکتی ہے۔

مگر اب ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس کے منفی پہلو اس سے کہیں زیادہ ہیں اور وہ واقعی تشویشناک ہیں۔ کیوں کہ یہی سوشل میڈیا بعض اوقات ہمارے ہاتھوں میں ایک ایسا خطرناک ہتھیار بھی بن جاتا ہے جو ہمیں اور ہمارے ارد گرد کے معاشرے کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ہم کی بورڈ وریئرز بن کر بغیر سوچے سمجھے اور بغیر تحقیق کے خبریں، پوسٹس اور ویڈیوز آگے شیئر کر دیتے ہیں جو نفرت، تقسیم اور الزام تراشی کو ہوا دیتی ہیں۔ لمحوں کی جذباتی کیفیت میں لکھا گیا ایک جملہ یا شیئر کی گئی ایک فیک پوسٹ نہ صرف سچائی کو دباتی ہے بلکہ پورے معاشرے میں غلط فہمیاں اور کشیدگی پیدا کر دیتی ہے۔ یہ نفرت اب صرف اداروں تک محدود نہیں رہی بلکہ عام لوگوں تک بھی پھیل چکی ہے۔

سیاسی جماعتوں کی لڑائیاں، لسانی تعصب یا ذاتی دشمنیاں ان سب کی شدت میں سوشل میڈیا نے غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے۔ ہم یہ بھی نہیں دیکھتے کہ جو کچھ ہم آگے شیئر کر رہے ہیں وہ سچ ہے یا جھوٹ۔ وقتی طور پر چند لائکس اور کمنٹس تو ضرور مل جاتے ہیں، مگر اس کے نتیجے میں بعض اوقات کسی کی عزت خاک میں مل جاتی ہے، خاندان ٹوٹ جاتے ہیں اور معاشرے میں بداعتمادی کی فضا بڑھتی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اصل سچائی پیچھے رہ جاتی ہے جبکہ جھوٹ، افواہیں اور نفرت آگے نکل جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص یا ادارہ غلطی کرے تو اس پر تنقید ضرور ہونی چاہیے، مگر ایسی تنقید جو اصلاح کی نیت سے ہو، نہ کہ صرف الزام تراشی یا نفرت پھیلانے کے لیے۔ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ خبر یا ویڈیو آگے شیئر کرنے سے پہلے اس کی تصدیق لازمی کریں، اس کا ذریعہ دیکھیں، اور یہ سوچیں کہ کہیں ہم انجانے میں کسی کے ساتھ ظلم تو نہیں کر رہے۔ ہر وائرل خبر سچ نہیں ہوتی، اور ہر وائرل ویڈیو انصاف کی ضمانت بھی نہیں ہوتی۔ پاکستان کی آبادی کا لگ بھگ ساٹھ فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے اور انہی نوجوانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس طاقت کو معاشرے کی بہتری کے لیے استعمال کریں یا نفرت اور تقسیم کے لیے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ حال ہی میں حکومت پاکستان نے تمام بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو ملک میں اپنے دفاتر کھولنے کی ہدایت دی ہے تاکہ مقامی سطح پر بہتر رابطہ کاری اور شکایات کا ازالہ کیا جا سکے۔ میں یہ سب اس لیے بیان کر رہا ہوں تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ سوشل میڈیا بذات خود نہ اچھا ہے اور نہ برا ہے، اصل فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے کہ ہم اسے کیسے استعمال کرتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts

تحریکِ انصاف کا المیہ

شیراز پراچہ تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ یہ پوری پارٹی اور اسکی لیڈرشپ سکینڈل بنانے اور منفی پروپیگنڈا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ

Read More »