گزشتہ شب سی ایم ہاؤس پشاور میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کی زیر صدارت اہم سرکاری حکام کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں باجوڑ سمیت صوبے کے دیگر علاقوں کو درپیش سیکیورٹی صورتحال پر مشاورت کی گئی اور بعض ایسے اقدامات کا اعلان کیا گیا جن کو آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ہونے والی وزیر اعلیٰ کی پریس کانفرنس کا تسلسل کہا جاسکتا ہے ۔ مثال کے طور پر یہ کہا گیا کہ فوجی آپریشنز کی اجازت نہیں دی جائے گی اور کسی بھی ڈپٹی کمشنر کو صوبائی وزارت داخلہ کی اجازت کے بغیر کرفیو لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ یہ بھی کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو بلانے کے آپشن کو ریورس کرنے کی کوشش کی جائے گی اور یہ کہ فوجی کارروائیوں کے درکار نتائج نہیں نکلتے ۔ اس موقع پر سب سے بڑا اعلان یہ کیا گیا کہ بہت جلد صوبائی حکومت کے زیرِ اہتمام قبائلی علاقوں کے رہنماؤں پر مشتمل جرگہ بلایا جائے گا ۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ ہاؤس کے بعض ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ آیندہ چند دنوں کے دوران صوبائی اپیکس کمیٹی کا اجلاس بلانے جارہے ہیں تاکہ ملٹری حکام کے ساتھ جاری صورتحال پر مشاورت کی جائے ۔ مگر اسی روز وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا کہ وہ 5 اگست کو دی گئی احتجاجی کال کے تناظر میں ہونے والی ایونٹس کو خود لیڈ کریں گے ۔ دیکھا جائے تو صوبائی حکومت اور پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت کی ترجیحات میں امن کے قیام کے لیے سنجیدہ کوششوں کی بجائے اتنے بدترین حالات کے باوجود کوئی سنجیدگی نظر نہیں آتی اور صوبائی حکومت ملٹری اسٹبلشمنٹ اور وفاقی حکومت کی مخالفت میں پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کی پرانی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس سے نہ صرف کشیدگی اور بداعتمادی میں مزید اضافے کا راستہ ہموار ہوگا بلکہ اس بداعتمادی سے وہ گروپ مزید فایدہ اٹھائیں گے جو کہ صوبے پر مختلف طریقوں سے حملہ اور ہیں اور شاید پی ٹی آئی چاہتی بھی یہی ہے کہ کالعدم گروپوں کے ذریعے دباؤ بڑھا کر ریاست کو کمزور کیا جائے ۔
باجوڑ آپریشن کے تناظر میں پی ٹی آئی کے وزراء سمیت اکثر اہم قائدین ریاست کے دفاع کی بجائے ٹی ٹی پی کے ” ترجمان ” دکھائی دیے جو کہ ایک خطرناک طرز عمل ہے ۔ اگر یہی رویہ جاری رہا تو صوبے کے معاملات ریاست کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کے ہاتھ سے بھی نکل جائیں گے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ سنجیدہ ماہرین تصادم پر مشتمل اس پالیسی کو بہت تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔
(جولائی 30، 2025)