ضیاء الحق سرحدی
پاکستان کی معیشت میں ترسیلاتِ زر کا کردار ہمیشہ سے بہت اہم رہا ہے۔ ہر سال کثیر تعداد میں پاکستانی بیرونی ملکوں سے رقوم بھیجتے ہیں۔ لاکھوں پاکستانی قانونی ذرائع سے ہر سال جو پیسے بھیجتے ہیں اس پیسے سے کاروبار اور معاشی ترقی میں اضافہ ہوتا ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں بیرونِ ملک سے اپنے ملک پیسے بھیجنے والے پہلے دس ممالک میں پاکستان کا ساتواں نمبر ہے۔ہمارے ملک کی معیشت کو بہت حد تک سہارا ان ہی رقوم سے ملتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی منڈی میں صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک نے ایسے افراد کو اپنے ملک امپورٹ کر کے کوئی احسان نہیں کیا چونکہ ایک تو ان کے ہاں نوجوانوں کی قلت ہے دوسرا لیبر بھی بہت مہنگی ہے جس سے ان کی کاسٹ آف پروڈکشن میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔
ان ترقی پزیر ممالک سے انہیں ایسے سستے ہنر مند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنلز مل جاتے ہیں جن کی محنت اور اہلیت کے سبب نہ صرف پیداواری اخراجات میں کمی آئی ہے بلکہ پیداوار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔مزید یہ کہ ان کو نئے عملے کی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے بکھیڑے میں پڑنا نہیں پڑتا اور اس مد میں اخراجات سے بھی وہ بچ جاتے ہیں۔ مزدوروں کی قلت سے دوچار ممالک اقتصادی گردش کے اتار چڑھاؤ کے شکار تو ضرور ہوتے ہیں لیکن ان کی معیشت ترقی کرتی رہتی ہے، وہ جمود کا شکار نہیں ہوتی۔ پاکستان کو قدرت نے بے بہا وسائل اور بہت زیادہ افرادی قوت سے نوازا ہے مگر یہاں مسئلہ مالی وسائل کی قلت کا ہے، بے روزگاری کی سطح بلند ہے، اسی لئے کہ اضافی افرادی قوت کے لئے روزگار ہی دستیاب نہیں ہے۔ ہماری لیبر ان ملکوں کے کام آجاتی ہے اور ہمیں اپنی بیرونی ادائیگیوں کے لئے فارن کرنسی میسر ہو جاتی ہے، اس سے ہمیں توازنِ ادائیگی میں تو بہت مدد ملتی ہے، لیکن ترسیلاتِ زر کے حوالے سے ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ بیرونِ ملک سے آنے والی ترسیلات افراطِ زر میں اضافہ کا موجب ہوتی ہیں کیونکہ ان سے ملک میں موجود اشیاء میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ موجود اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اس سے غریبوں کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جیسے ہمارے ہاں زیادہ تر باہر سے آنے والی ترسیلات سے پراپرٹیز خریدی جاتی ہیں جس سے یہاں پلاٹس کے ریٹ بہت بڑھ گئے ہیں۔ قانونی طریقوں سے ترسیلاتِ زر کے فروغ کے لئے صارفین سے تعلقات مستحکم کرنے اور عوام الناس کو ترسیلاتِ زر کے لئے زیادہ سے زیادہ فوائد پہنچانے کے لئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان، منسٹری آف اوورسیز پاکستانیز اور وزارتِ خزانہ نے ایک مشترکہ ادارہ پاکستان ریمیٹنس انیشیٹو بنایا ہے۔
اس سے بیرونِ ملک تارکین اپنے گھر اپنی ترسیلات بلا معاوضہ بھجوا سکتے ہیں۔ اس کا ایک یہ بھی مقصد ہے کہ ہنڈی کے ذریعے رقوم بھجوانے کی حوصلہ شکنی کی جائے کیونکہ حوالہ، ہنڈی غیر قانونی ہے۔ یہ ادارہ اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ملک میں ترسیلاتِ زر کے لئے عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنے کے لئے دن رات کام کر رہا ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کے وطنِ عزیز میں مقیم اپنے اہلِ خانہ کو رقوم بھیجنے میں سہولتوں کی فراہمی سمیت پاکستان میں محفوظ سرمایہ کاری کی با مقصد ترغیب دینے سے اچھے نتائج کی توقع ایک منطقی بات ہے جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ملکی معیشت پر اعتماد اور اپنوں سے جڑے رہنے کی مثال قائم کرتے ہوئے مالی سال 2024-25کے دوران 38.3ارب ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات پاکستان بھجوائیں، جو ملکی تاریخ میں ایک سال کے دوران بھیجی جانے والی بلند ترین رقم ہے۔گزشتہ مالی سال 2023-24کے دوران ترسیلات زر کا حجم 30.3ارب ڈالر رہا تھا، اس لحاظ سے سال بہ سال بنیاد پر ترسیلات میں 8ارب ڈالر یعنی 26.6فیصد کا نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
اس تاریخی کارکردگی میں سب سے زیادہ ترسیلات سعودی عرب سے بھجوائی گئیں جو کہ 9.3ارب ڈالر رہیں۔متحدہ عرب امارات سے 7.8 ارب ڈالر، برطانیہ سے 5.9 ارب ڈالر، یورپی ممالک سے 4.5 ارب ڈالر اور امریکا سے 3.7 ارب ڈالر کی ترسیلات موصول ہوئیں اور اس طرح ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافے سے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوئے ہیں۔ بلوم برگ کا کہنا ہے کہ ڈالر کی غیر قانونی تجارت کے خلاف پاکستان کے اقدامات سے ترسیلات زر میں نمایاں بہتری آئی ہے۔مالیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ ترسیلات زر میں اضافہ شرح تبادلہ میں استحکام اور کرنسیوں کی غیر قانونی تجارت کے خلاف کریک ڈاؤن کا نتیجہ ہے۔ ترسیلات زر غربت میں کمی اور زرمبادلہ بڑھانے کا کلیدی ذریعہ ہیں، پالیسی اقدامات ترسیلات زر کو سرمایہ کاری میں تبدیل، معیشت کی پیداواری صلاحیت، معاشی ترقی کی شرح میں اضافہ، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ پاکستان میں ووکیشنل تعلیم سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ معاشی ست روی کے دوران ہنر مندی کی ترقی ایک ناقابل تردید آپشن ہے، جو پاکستان کے لئے اربوں ڈالر کی غیر ملکی ترسیلات کمانے میں مدد دے سکتا ہے، ہنر ملک کی درآمدات پر منحصر صنعت کو بھی تقویت دے سکتا ہے۔ ہنر مند افرادی قوت پاکستان کی اقتصادی ترقی کو تیز اور مقامی صنعتوں کو مضبوط کر سکتی ہے، جن کا بہت زیادہ انحصار درآمد شدہ خام مال پر ہے۔ حکومت اگر افرادی قوت کی برآمد بڑھانے پر توجہ دے تو پاکستانی ہنر مندوں کے لئے دنیا کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
حکومت کو چاہئے کہ پاکستان کی افرادی قوت کو ووکیشنل ٹریننگ کے ذریعے ہنر مند بنا کر بیرون ملک بھیجے تا کہ انہیں زیادہ سے زیادہ اجرتوں پر ملازمتیں مل سکیں جس سے ہماری ترسیلات زر میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ضروی ہے کہ پاکستان سے کرنسی کی سمگلنگ روکنے کے خاطر خواہ اقدامات کئے جائیں۔ یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ روزانہ غیر قانونی طریقے سے لاکھوں ڈالر مالیت کی غیر ملکی کرنسی اسمگل ہوتی ہے جس کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ قانون نافظ کرنے والے متعلقہ اداروں خصوصاً سرحدوں پر تعینات ایجنسیوں کو مزید اقدامات کرنے چاہئے۔دوسرا یہ کہ ملکی معیشت اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی اور نہ ہی مضبوط ہو سکتی ہے جب تک ملک میں پیداواری شعبہ مضبوط نہ کیا جائے اور ملک کی برآمدات نہ بڑھائی جائیں اور درآمدات کو کم کیا جائے۔ ملک کی برآمدات بڑھانے میں سب سے اہم شعبہ پیداوار کا ہے اور ہمیں اپنے روایتی اور غیر روایتی دونوں شعبوں کو فوکس کر کے اس کی پیداوار بڑھانے میں اپنا کرادر ادا کرنا ہو گا۔ ترسیلاتِ زر اور برآمدات میں اضافہ پاکستان کے تجارتی خسارے کے لئے ناگزیر ہے۔