عمر حیات یوسفزئی
خیبر پختونخوا کے تعلیمی بورڈز کے تحت حالیہ دنوں نویں اور دسویں جماعت کے نتائج سامنے آئے تو ایک بار پھر پرائیویٹ سکولوں نے میدان مار لیا جبکہ سرکاری سکول پیچھے رہ گئے۔ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ پچھلے کئی سالوں سے یہی سلسلہ چل رہا ہے اور ہر سال نتائج مزید خراب ہو رہے ہیں۔ صوبے بھر میں 845 سرکاری سکول ایسے رہے جن کا نتیجہ 50 فیصد سے کم آیا۔ 44 سکول ایسے تھے جہاں سے ایک بھی بچہ پاس نہ ہو سکا۔ تعلیمی ایمرجنسی کے نام پر برسوں سے ہونے والے دعوؤں کے باوجود نظام کی ناکامی ہیں۔ کچھ اصلاحات تو کی گئی ہیں، جیسے کہ اساتذہ کی بایومیٹرک تصدیق کا نظام، مگر اب بھی بہت سے مقامات پر یہ فعال نہیں ہے۔ مانیٹرنگ کا نظام لیکن یہ ناکافی ہے۔سب سے زیادہ ناکامی انہی اضلاع میں ہوئی جہاں سیاسی قیادت اور تعلیمی محکمے نے سب سے زیادہ دعوے کیے تھے، جیسے سوات، مردان، ملاکنڈ، ایبٹ آباد، ڈی آئی خان، کوہاٹ وغیرہ۔ سوات ضلع میں تقریباً 40 ہزار طلبہ فیل ہوئے۔
یہ کسی ایک یا دو سکول کا نہیں بلکہ پورے تعلیمی نظام کا بحران ہے۔ الف اعلان اور دیگر رپورٹوں کے مطابق تقریباً 60 فیصد سرکاری اساتذہ اپنے بچوں کو نجی سکولوں میں بھیجتے ہیں۔ جب استاد کو خود اپنے سکول پر اعتماد نہیں تو والدین کیسے اعتماد کریں گے؟ استاد کا اپنا بچہ بھی سرکاری سکول میں نہیں پڑھ سکتا تو عام لوگوں کا بچہ کیسے پڑھے؟ سرکاری سکولوں کے بارے میں ایک ماہر تعلیم نے بتایا کہ سرکاری سکولوں میں اکثر 80 سے 100 تک بچے ایک کلاس میں بٹھا دیے جاتے ہیں جبکہ نجی سکول یہی تعداد 20 تک محدود رکھتے ہیں۔ اساتذہ کے لیے اتنے بڑے ہجوم میں ہر بچے پر انفرادی توجہ دینا، ہوم ورک چیک کرنا اور کمزور بچوں کو سمجھانا تقریباً ناممکن ہے۔ ماہر تعلیم نے نشاندہی کی کہ نجی سکول آٹھویں جماعت میں ہی وہ نصاب پڑھانا شروع کر دیتے ہیں جو سرکاری اسکول نویں میں شروع کرتے ہیں۔
اس سے ان کے طلبہ کی تیاری وقت سے پہلے مکمل ہو جاتی ہے جبکہ سرکاری سکول اکثر کتابیں وقت پر نہ ملنے، اساتذہ کی کمی، غیر حاضری یا ہڑتالوں کی وجہ سے پورا نصاب مکمل ہی نہیں کر پاتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نجی سکول غیر نصابی سرگرمیوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے بلکہ ان کا اصل زور صرف نمبروں اور نتیجے پر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس حالیہ دنوں میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (DEO) اور ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (DDEO) نے ہدایات جاری کی ہیں کہ تعطیلات کے بعد طلبہ کو خوش آمدید کہا جائے، سکول کی صفائی اور یومِ آزادی کی تقریبات پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ تربیت اور کردار سازی مضبوط ہو۔ تازہ ترین پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (DEO) سیکرٹری ایجوکیشن ہر ضلع میں سکولوں کا وزٹ کریں گے اور تعلیمی معیار کا جائزہ لیں گے۔ حالیہ نتائج کے بعد یہ قدم خوش آئند ہے۔ ایک اور ماہر تعلیم کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ اچھی بات ہے مگر اصل تبدیلی اس وقت تک نہیں آ سکتی جب تک اصل مسئلوں جیسے میرٹ کی پامالی اور غیر شفاف بھرتیوں کو حل نہ کیا جائے۔
سینئر ماہر تعلیم کے بقول اصل مسئلہ سیاسی مداخلت ہے۔ جب بورڈ چیئرمین، کنٹرولر امتحانات جیسے حساس اور کلیدی عہدوں پر میرٹ کے بجائے سیاسی بنیادوں پر تعیناتیاں ہوں گی تو نتیجہ شفاف اور معیاری کیسے آ سکتا ہے؟ اگر واقعی حکومت سنجیدہ ہے تو ان اہم عہدوں پر کمیشن امتحان یا ایٹا (ETA) کے طرز پر شفاف سسٹم لا کر صرف اہل اور دیانتدار افراد کو موقع دیا جائے۔ ورنہ سالانہ امتحانات کی نگرانی، پرچوں کی جانچ اور رزلٹ کی شفافیت ہمیشہ مشکوک رہے گی۔ ایک استاد نے بتایا کہ نجی سکول چونکہ فیس لیتے ہیں اس لیے والدین بھی بچوں پر زیادہ دھیان دیتے ہیں۔ جبکہ سرکاری سکول چونکہ مفت ہیں تو والدین کی اکثریت بھی غفلت برتتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سرکاری طلبہ پر گھر سے بھی وہ دباؤ نہیں آتا جو ان کی تعلیمی کارکردگی بہتر بنا سکے۔ کچھ ماہرین نے افسوس کا اظہار کیا کہ بعض سکولوں میں اساتذہ طلبہ سے غیر تعلیمی کام کراتے ہیں یا نمبروں کے بدلے تحفے وغیرہ لیتے ہیں۔ اس سے نہ صرف معیار گرتا ہے بلکہ ایماندار اساتذہ کا حوصلہ بھی پست ہوتا ہے۔ ایک سابق پرنسپل نے بتایا کہ ان کا سکول کبھی صوبے بھر میں ٹاپ کرتا تھا کیونکہ اساتذہ نے ادارے کو دل سے اپنا سمجھا تھا، پرائیویٹ سکول میں ہر بندہ ادارہ کو اپنا سمجھ کر چلاتا ہے، خود پڑھاتا ہے، چائے بھی خود بناتا ہے اور صفائی کا بھی خیال رکھتا ہے۔ جبکہ گورنمنٹ سکول کو کوئی اون نہیں کرتا، حالانکہ وہاں زیادہ سہولتیں ہیں۔ جب ایک استاد سرکاری سکول کو اپنا سمجھے گا، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ مگر اعلیٰ حکام کی عدم حوصلہ افزائی سے سرکاری سکولوں میں ستائش (اپریسی ایشن) کا کوئی خاص کلچر نہیں ہے۔ آپ جتنی مرضی محنت کرلیں، اچھے نتائج لے آئیں، مگر نہ کوئی ڈی ای او اور نہ ہی کوئی دوسرا افسر آپ کو سراہتا ہے۔ اس سے انسان دل برداشتہ اور مایوس ہوجاتا ہے، پھر یہی سوچ آتی ہے کہ جب محنت کا کوئی صلہ نہیں تو محنت کیوں کی جائے؟؎
یہی وہ بڑے اسباب ہیں جو پرائیویٹ اور گورنمنٹ سکولوں میں فرق پیدا کرتے ہیں۔ پرائیویٹ سکولوں میں زیادہ تر نوجوان اور پُرجوش اساتذہ ہوتے ہیں، ان سے باقاعدہ پروگریس رپورٹ مانگی جاتی ہے اور کارکردگی کی بنیاد پر ان کی تنخواہ میں اضافہ بھی کیا جاتا ہے۔ جبکہ سرکاری شعبے میں یہ چیزیں نہیں ہوتیں؛ بس وقت گزارنا اور چلے جانا معمول بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں تعلیمی ماحول میں جان نہیں آتی اور استاد بھی اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے ہچکچاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ نجی سکولوں میں چونکہ کلاس میں بچے کم ہوتے ہیں، اس لئے استاد ہر بچے کو اچھی طرح دیکھ لیتا ہے۔ یوں بچے کی تعلیم کی بنیاد شروع سے ہی مضبوط بن جاتی ہے اور اس کو ہر چیز صحیح طرح سمجھ آتی ہے۔ اگر کوئی بچہ کسی سبق میں پیچھے بھی رہ جائے تو استاد فوراً اس کی مدد کر دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں سرکاری سکولوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، جس سے استاد کے لیے ہر بچے پر خاص توجہ دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے کئی بچوں کی بنیاد کمزور رہ جاتی ہے۔ بعد میں چاہے وہ جتنا بھی محنت کریں، ان کے نمبر زیادہ نہیں آ پاتے، کیونکہ شروع میں جو کمی رہ جاتی ہے وہ آخر تک اثر ڈالتی ہے۔ ماہرین کی نظر میں اس کا حل یہ ہے کہ بورڈ چیئرمین، کنٹرولر امتحانات جیسے اہم عہدوں پر کمیشن امتحان یا ایٹا کے ذریعے میرٹ پر بھرتی کی جائے، سرکاری سکولوں میں کلاسوں کی تعداد کم کی جائے، اساتذہ کی مسلسل تربیت ہو، کتابیں وقت پر فراہم کی جائیں، والدین کو بھی شامل کیا جائے اور سب سے بڑھ کر سیاسی مداخلت کا خاتمہ کیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہر سال صرف وزٹس، مہمات اور تقریبات سے مطمئن ہو جائیں گے یا پھر واقعی سخت فیصلے لے کر سسٹم کو ٹھیک کریں گے؟ ایک ماہر تعلیم کے بقول اگر یہ لازمی مگر مشکل فیصلے نہ ہوئے تو آنے والے سالوں میں بھی یہی نتائج آئیں گے اور ہم پھر وہی سوال پوچھیں گے کہ آخر ہمارے سرکاری سکولوں کے بچے نجی سکولوں کے بچوں سے کیوں پیچھے رہ جاتے ہیں؟ اور اس دوران ایک اور نسل اپنے خوابوں سمیت پیچھے رہ جائے گی، جس کا خمیازہ پورے معاشرے کو بھگتنا پڑے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب بطور اساتذہ، والدین، معاشرہ اور حکومت اپنا بھرپور کردار ادا کریں تاکہ سرکاری سکولوں کی حالت بہتر ہو سکے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اساتذہ کو اپنی ذمہ داری محض تدریس تک محدود نہیں رکھنی چاہیے بلکہ طلبہ کی ذہنی و اخلاقی تربیت اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے پر بھی بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیمی کارکردگی میں دل سے دلچسپی لیں، ان کے ہوم ورک اور سکول کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور انہیں سیکھنے کی طرف مائل کریں۔ معاشرے کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرے، اساتذہ اور طلبہ کی حوصلہ افزائی کرے اور تعلیمی اداروں کے لیے بہتر ماحول فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت پر لازم ہے کہ وہ سرکاری سکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی، جدید تدریسی وسائل اور اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کو یقینی بنائے تاکہ ان سکولوں کا معیار بہتر ہو اور طلبہ کو معیاری تعلیم میسر آ سکے۔