GHAG

امریکی ٹیرف پالیسی اور اس کے ممکنہ اثرات

امریکہ کی ٹیرف پالیسی اور اس کے اثرات

اے وسیم خٹک

امریکہ فرسٹ پالیسی کے تحٹ امریکہ نے ایک بار پھر اپنی عالمی تجارتی نظام میں ایک بڑی تبدیلی کرتے ہوئے متعدد ممالک پر درآمدی ٹیرف عائد کر دیے ہیں۔ یہ فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیانیے کی توسیع ہے جس میں انہوں نے امریکی صنعت کو بیرونی مقابلے سے بچانے کے لیے سخت معاشی اقدامات کا عندیہ دیا تھا۔ ٹیرف دراصل وہ مالیاتی دیوار ہے جسے استعمال کر کے امریکہ بیرونی مصنوعات کو مہنگا کرتا ہے تاکہ اس کی اپنی مصنوعات ملکی منڈی میں زیادہ قابلِ فروخت ہوں۔ اس بار ٹیرف کا دائرہ کئی براعظموں تک پھیل چکا ہے، اور ان میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، ترکیہ، اسرائیل، جنوبی افریقہ، ویتنام، وینزویلا، سوئٹزرلینڈ، عراق، جاپان، لیبیا اور میانمار جیسے ممالک شامل ہیں۔

صدر ٹرمپ کے دستخط شدہ ایگزیکٹو آرڈر کے مطابق، پاکستان پر 19 فیصد، بھارت پر 25 فیصد، بنگلہ دیش پر 20 فیصد، ترکیہ اور اسرائیل پر 15 فیصد، جبکہ کینیڈا پر ٹیرف 25 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح جنوبی افریقہ پر 30 فیصد، ویتنام پر 20 فیصد، وینزویلا پر 15 فیصد، سوئٹزرلینڈ پر 39 فیصد، عراق پر 35 فیصد، جاپان پر 15 فیصد، لیبیا پر 30 فیصد، اور میانمار پر 40 فیصد ٹیرف لاگو کیا گیا ہے۔ ان اقدامات کا نفاذ فوری طور پر شروع ہو چکا ہے۔

یہ فیصلہ بظاہر تجارتی مفادات کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے لیکن اس کا اثر صرف اشیاء کی قیمتوں پر نہیں بلکہ ملکوں کے درمیان معاشی توازن پر بھی پڑتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے 19 فیصد ٹیرف ایک سنگین دھچکہ ہے۔ امریکہ طویل عرصے سے پاکستان کی ٹیکسٹائل، سرجیکل، اسپورٹس اور زرعی مصنوعات کی بڑی منڈی رہا ہے۔ اس فیصلے سے پاکستانی مصنوعات کی قیمتیں امریکی مارکیٹ میں مزید بڑھ جائیں گی، جس کے نتیجے میں اُن کی مسابقت کم ہوگی اور برآمدات متاثر ہوں گی۔

بھارت کے لیے 25 فیصد ٹیرف ایسے وقت میں آیا ہے جب وہ امریکہ کے ساتھ دفاعی و تجارتی شراکت داری بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان پہلے ہی کئی تجارتی معاملات پر اختلافات موجود ہیں، اور یہ اضافہ ان تعلقات میں مزید کھچاؤ پیدا کرے گا۔ بنگلہ دیش جیسے ملک، جہاں کی گارمنٹس انڈسٹری امریکہ پر شدید انحصار کرتی ہے، بیس فیصد ٹیرف کے باعث ایک بڑی مشکل کا سامنا کرے گی۔ ایسے ہی ترکیہ اور اسرائیل جیسے ممالک کو بھی نئی اقتصادی حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی۔

یہ اقدامات صرف دو طرفہ تجارت تک محدود نہیں رہتے۔ جب امریکہ کسی ملک پر اس نوعیت کے ٹیرف عائد کرتا ہے، تو اس کے اثرات پوری سپلائی چین پر پڑتے ہیں۔ ایک پاکستانی فیکٹری میں اگر امریکی آرڈر کم ہو جائیں تو اس کا نقصان صرف کارخانے کو نہیں بلکہ کسان، مزدور، برآمدی ایجنسیاں اور دیگر ذیلی شعبے بھی برداشت کرتے ہیں۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو امریکہ نے ماضی میں بھی ٹیرف کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔ 1930 کی دہائی میں “اسموٹ-ہاؤلی ٹیرف” نے عالمی کساد بازاری کو مزید شدید کر دیا تھا۔ آج کی دنیا، جہاں گلوبلائزیشن ایک بنیادی اصول بن چکا ہے، وہاں اس قسم کے فیصلے عالمی اقتصادی نظام کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔

ایسے اقدامات سے امریکہ کو قلیل مدتی فائدہ تو ضرور ہو سکتا ہے، جیسے ملازمتوں میں اضافہ یا مقامی صنعت کی فوری بحالی، لیکن طویل مدتی اثرات نہایت پیچیدہ اور دور رس ہو سکتے ہیں۔ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو اب متبادل منڈیوں کی تلاش، برآمدی تنوع اور اندرونی پیداواری معیار کو بہتر بنانے جیسے اقدامات پر تیزی سے کام کرنا ہوگا۔

یہ بھی اہم ہے کہ عالمی تجارتی ادارے اور علاقائی بلاکس، جیسے WTO، SAARC یا ASEAN، ان ٹیرف کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی اپنائیں تاکہ معاشی توازن کو برقرار رکھا جا سکے۔ اس وقت جب دنیا مہنگائی، افراط زر اور کساد بازاری کے مسائل سے دوچار ہے، ایسے فیصلے بین الاقوامی سطح پر اقتصادی بے چینی میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts