ممتاز تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے ایک حالیہ کالم میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے ساتھ تبادلہ خیال اور برسلز میں پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ ہونے والی ان کی گفتگو سے متعلق اہم نکات پیش کیے ہیں جن پر میڈیا میں بحث جاری ہے ۔ فیلڈ مارشل کے مطابق ان کے لیے سب سے بڑا اعزاز اور عہدہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کے دفاع کے محافظ ہیں اور ان کو کسی اور عہدے کی حصول کی کوئی خواہش اور ضرورت نہیں ہے ۔ ان کے بقول تبدیلی کی باتیں اور افواہیں وہ عناصر پھیلارہے ہیں جو کہ حکومت اور ریاست دونوں کے مخالف ہیں ۔
دوسری جانب انہوں نے ایک مخصوص پارٹی کے ساتھ ریاستی اداروں کے تعلقات کار کے تناظر میں دو ٹوک انداز میں واضح کردیا ہے ” سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے” ۔ فیلڈ مارشل نے دہشت گردی اور کراس بارڈر ٹیررازم سے متعلق کہا کہ پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دینے سمیت افغانستان کی ہر ممکن مدد کی مگر اس کے بدلے میں بھارتی پراکسیز اور دہشت گرد گروپوں کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ۔ تعلقات کی بہتری کا طریقہ یہ ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کو پاکستان کی طرف دھکیلنے اور بھیجنے کا سلسلہ ترک کرے ورنہ پاکستان یہ حق محفوظ رکھتا ہے کہ وہ اپنے ایک ایک شہری کا بدلہ لے کر تمام آپشنز استعمال کرے ۔
دوسری جانب ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے بلوچستان کے اسٹوڈنٹس کے ساتھ منعقدہ ایک نشست میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ افواج پاکستان کو کسی بھی علاقے میں فوجی کارروائی یا آپریشن کا شوق نہیں ہے تاہم ملک کے ہر علاقے کو دہشت گردی اور شر پسندی سے محفوظ رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی نشاندھی اور سماجی سطح پر ان کی مخالفت عوام کی ذمہ داری بنتی ہے تاکہ دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن بنایا جاسکے اور مقامی آبادیوں کو کسی کارروائی کی شکل میں نقصان سے بچا کر رکھا جائے ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اسٹوڈنٹس کے مختلف سوالات کے جواب میں کہا کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا نہ صرف ریاست کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں بلکہ ملک کی سیکیورٹی نمائندگی اور ترقی میں بھی ان دو صوبوں کا بنیادی کردار رہا ہے ایسے میں ان صوبوں کے عوام کے تحفظ اور حقوق کا ہر قیمت پر دفاع کیا جائے گا اور چند مٹھی بھر پاکستان مخالف عناصر کے بیانیہ اور پروپیگنڈا کو عوام کی رائے کا نام نہیں دیا جاسکتا ۔
ماہرین اور تجزیہ کار ملٹری لیڈر شپ کے ان دو اہم عہدے داروں کے ان خیالات کو اس تناظر میں بہت اہم قرار دے رہے ہیں کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ایک مخصوص پارٹی اور بعض اینکر پرسنز کی جانب سے یہ پروپیگنڈا جاری ہے کہ شاید فیلڈ مارشل کے صدر بننے کی کوئی پلاننگ کی جارہی ہے ۔ مذکورہ ” مہم جوئی ” میں امریکہ کا نام لیکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جاری نظام کو لپیٹنے کی تیاری ہورہی ہے اور یہ سب امریکی خواہش کے مطابق کیا جارہا ہے حالانکہ معروضی حالات میں ایسی کسی کوشش کی کوئی منطق سمجھ میں نہیں آرہی مگر اس ” پروپیگنڈا گردی” میں بعض سنجیدہ تجزیہ کاروں نے بھی ” تڑکا ” لگانے کا بھرپور حصہ لیا ۔
اس قسم کی ” اطلاعات” کو مذکورہ وضاحت کے بعد پیشہ ورانہ زمہ داریوں کے تناظر میں ریٹنگ بڑھانے اور پوائنٹ اسکورنگ کے علاؤہ دوسرا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی حکومت کے متعلقہ ادارے مین سٹریم میڈیا کے ایسے پروپیگنڈے کی روک تھام پر توجہ دیں تاکہ بد اعتمادی پیدا کرنے کے اس سلسلے کا راستہ روکا جائے ۔
(اگست 17، 2025)