عمر حیات یوسفزئی
15 اگست 2021 کو افغان طالبان نے دوبارہ افغانستان کا کنٹرول سنبھالا۔ آج انہیں 4 سال ہوگئے۔ ان 4 سالوں میں انہوں نے کیا کچھ پایا اور کیا چیلنجز درپیش ہیں۔طالبان کے 4 سالہ اقتدار میں افغانستان میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کی قیادت میں حکومت نے سخت مذہبی قوانین نافذ کیے ہیں، افغانستان میں تقریباً امن قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
جبکہ خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندیاں برقرار ہیں۔ علاقائی ممالک جیسے چین اور روس نے طالبان کے ساتھ تعلقات بڑھائے ہیں، مگر پاکستان تحریک طالبان پاکستان کے خلاف مؤثر کارروائی نہ ہونے پر نالاں ہے۔ معیشت شدید دباؤ میں ہے، جس کی وجہ سے غذائی قلت، بے روزگاری اور بین الاقوامی امداد کی کمی عوام کی زندگی مشکل بنا رہی ہے۔ آگے کا سب سے بڑا چیلنج طالبان کے لیے یہ ہے کہ وہ عوامی ضروریات کو پورا کریں، ورنہ ان کے اقتدار کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
افغان طالبان کا سفر ایک ایسا عمل ہے جو قدامت پسندی، داخلی اصلاحات اور عالمی تسلیمیت کے درمیان مسلسل توازن تلاش کرتا رہا ہے۔ 1996 میں پہلی بار اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے افغانستان پر سخت گیر حکومت قائم کی۔ ملا عمر کی قیادت میں خواتین کی تعلیم مکمل طور پر ممنوع تھی، co-education پر پابندی تھی، کھیل، تفریح اور میڈیا پر مکمل کنٹرول تھا، اور عوام کی زندگی خوف اور محدود مواقع کے سائے میں گزرتی تھی۔ عام شہری بنیادی سہولیات، تعلیم اور روزگار کے مواقع سے محروم تھے، اور ہر دن دہشت گردی اور تشدد کے خطرات کے ساتھ گزارنا پڑتا تھا۔2001 میں نائن الیون کے بعد طالبان نے اسامہ بن لادن کو پناہ دی، جس پر امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان حکومت ختم ہوگئی۔ اس کے بعد مختلف حکومتیں آئیں عبوری حکومت کے طور پر حامد کرزئی کی قیادت میں ملک چلایا گیا، پھر 2009 میں کرزئی کی منتخب حکومت اور بعد میں اشرف غنی کی قیادت میں حکومت رہی۔
ان بیس سالوں میں افغان عوام نے جنگ، دہشت گردی، سیاسی انتشار اور معاشی بحران کے شدید اثرات برداشت کیے۔ خواتین اور بچوں کے لیے تعلیم، صحت اور معاشرتی مواقع محدود رہے، اور عام زندگی مسلسل خطرات اور مشکلات میں گزرنے لگی۔2021 میں امریکہ کی پسپائی اور افغان حکومت کے انہدام کے بعد طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے۔ اس بار ان کے رویے میں واضح فرق دکھائی دیا۔ طالبان نے سمجھا کہ اگر سخت گیر پالیسیوں پر قائم رہے تو عالمی تنہائی اور داخلی مخالفت دونوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کھیل، میڈیا، تعلیم اور انسانی حقوق کے شعبوں میں محدود نرمی آئی، حالانکہ لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے طالبان کے اندر اختلافات بدستور موجود ہیں۔اگرچہ طالبان یکجہتی کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن ان کے اندر اختلافات اور طاقت کے تصادم موجود ہیں جو افغانستان میں ان کے حکومتی رویے اور پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
طالبان کے اندر دو نمایاں دھڑے ہیں۔ ایک دھڑا سخت گیر سوچ کا حامی ہے، جس کے ملا ہیبت ملا یعقوب (ملا عمر کے بیٹے) اور ملا عبدالغنی برادر شامل ہیں، جو پابندیوں اور قدامت پسند پالیسیوں پر قائم رہنے کے حق میں ہیں۔ اور مین کنٹرول بھی انہی کے پاس – دوسرا دھڑا جدید اور نسبتا نرم سوچ کا حامل ہے، جیسے طالبان کے سفارتی اور تعلیم کے شعبے اور عالمی سطح پر حکومت کو تسلیم کروانے اور پابندیوں کے خاتمے کے لیے نرمی اپنانے کے حامی ہیں۔ اس دو دھڑوں کے درمیان توازن قائم رکھنا طالبان کے لیے داخلی سطح پر سب سے بڑا چیلنج ہے۔دوسرا یہ کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی انتہائی نازک ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال نہ ہو، جبکہ طالبان قیادت یقین دہانی کراتی ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ تاہم عملی طور کچھ دیکھنے کو نہی مل رہا – باجوڑ اور دیگر سرحدی علاقوں میں دہشت گرد سرگرم ہیں اور بارڈر کراس کر کے کارروائیاں کرتے ہیں۔ دوسری جانب 20 اگست کو کابل میں پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی ملاقات طے ہے، جس میں ممکنہ طور پر سرحدی سیکورٹی اور دہشت گردی کے مسائل زیرِ بحث آئیں گے-ایک اور بڑا مسئلہ معاشی بحران ہے، کیونکہ بینکنگ نظام متاثر ہے، بیرونی امداد محدود ہے اور عوام کے لیے روزگار کے مواقع کم ہیں۔
اور اب ایران اور پاکستان بھی سکیورٹی چیلنجز کی وجہ سے افغان مہاجرین کو افغانستان واپس بھیج رہے ہیں تو یہ بوجھ بھی افغان طالبان کو اٹھانا پڑیگا. عالمی سطح پر زیادہ تر ممالک طالبان کی حکومت کو رسمی طور پر تسلیم نہیں کرتے، جس سے بین الاقوامی تنہائی اور اقتصادی دباؤ بڑھتا ہے۔ انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے تعلیم اور کام کرنے کے حقوق پر پابندیوں کی وجہ سے عالمی تنقید بھی ان کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔ سیکیورٹی کے مسائل بھی برقرار ہیں کیونکہ داعش اور دیگر عسکری گروہ طالبان کے کنٹرول کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، جبکہ تعلیمی اور صحت کی سہولیات محدود ہیں۔دوسری جانب طالبان کے مستقبل کے اہداف میں بین الاقوامی شناخت حاصل کرنا، معاشی استحکام لانا، سیکیورٹی مضبوط کرنا اور اپنے قوانین و نظام کو نافذ کرنا شامل ہے۔ اس طرح، اقتدار تو انہیں حاصل ہے لیکن داخلی اور خارجی دباؤ ان کے لیے بڑے امتحان ہے عالمی تعلقات کے حوالے سے طالبان کی حکمت عملی میں پیش رفت دیکھی جا رہی ہے۔ روس اور چین کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا، پابندیوں کے خاتمے اور بین الاقوامی سطح پر تسلیمیت حاصل کرنے کی کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ طالبان اب ماضی کی سخت گیر سوچ سے پیچھے ہٹ کر افغانستان کو عالمی تنہائی سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عوام کی زندگی میں بھی تبدیلیاں دیکھی جا سکتی ہیں: کھیل اور تفریح دوبارہ شروع ہو رہے ہیں، میڈیا نسبتا آزاد ہو گیا ہے، اور تعلیمی اداروں میں محدود نرمی دیکھنے کو مل رہی ہے، حالانکہ لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے پابندیاں برقرار ہیں۔اگر افغان طالبان ان چیلنجز پر قابو پالیتی ہیں تو یہ نہ صرف علاقائی بلکہ خاص کر پاکستان میں امن و استحکام کی باغث بنیگی افغانستان کی یہ موجودہ صورتحال ایک ارتقائی داستان پیش کرتی ہے ماضی کی سخت گیر قدامت پسندی، بیس سالہ جنگ کے تجربات، دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد کی محدود جدت، داخلی اختلافات، اور عالمی سطح پر تسلیمیت کے لیے جاری کوششیں۔ طالبان کا موجودہ سفر ایک ایسا پیچیدہ منظرنامہ ہے جہاں سخت گیر اور جدید سوچ رکھنے والے دھڑوں کے درمیان توازن، عوامی بھلائی، داخلی اصلاحات اور عالمی تعلقات کو ساتھ لے کر چلنا لازمی ہے۔ یہ سفر نہ صرف افغانستان کے مستقبل کی سمت متعین کرتا ہے بلکہ پورے خطے خاص کر پاکستان کی امن و استحکام میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔