GHAG

ایک ضربِ کاری کی ضرورت

آصف نثار غیاثی

پاکستان مسلسل کہتا رہا مگر افغان عبوری حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ہر بار پاکستان کے تحفظات کو محض الزام تراشی قرار دے کر مسترد کیا جاتا رہا مگر اب تو اقوام متحدہ نے بھی پاکستانی الزامات کی ایک طرح سے تصدیق کر دی ہے چند روز قبل اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹ میں قرار دیا گیا کہ پاکستان پر مسلسل حملوں میں ملوث کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان کے طالبان کے ساتھ ساتھ القاعدہ کی سرپرستی  آپریشنل اور لاجسٹک سپورٹ بھی حاصل ہے ۔ ٹیررازم کی مانیٹرنگ کرنے والے اقوام متحدہ کی 15 ویں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی تعداد تقریباً ساڑھے چھ ہزار ہے ان کو افغان طالبان،القاعدہ اور دیگر ہم خیال گروپوں کی جانب سے سپورٹ مل رہی ہے ۔ رپورٹ  کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے کارکنوں کو افغانستان کے چار صوبوں ننگرہار ، کونڑ ، نورستان اور قندھار میں قائم القاعدہ کے تربیتی کیمپوں میں ٹریننگ بھی دی جارہی ہے ۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان تمام عوامل کے باعث پاکستان پر سرحد پار سے ہونے والے حملوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا اور علاقائی امن کو خطرات لاحق ہیں ۔ گویا اب عالمی سطح پر پاکستان کے مؤقف پر مہر تصدیق ثبت کر دی گئی ہے جس کے بعد اب افغان عبوری حکومت کو حقیقت کا احساس کرنا ہوگا یہ نہیں ہو سکتا کہ اپنی سر زمین محفوظ رکھنے کےلئے پاکستان کے سرحدی اضلاع کو دہشت گردی کی نذر کیا جائے۔

 دلچسپ امر یہ رہا کہ  اس رپورٹ کے اگلے روز کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر مفتی نور ولی محسود نے ایک تفصیلی پیغام میں  اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی پاکستانی ریاست کے ساتھ بامقصد مذاکرات کے لیے تیار ہے اور یہ کہ اس کی کارروائیاں پاکستان کی پالیسوں کا ردعمل ہیں ۔ ابھی اس بیان کی گونج بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ٹی ٹی پی کی طرف سے ایک بار پھر فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ گویا مذاکرات کی بات میں سرے سے سنجیدگی ہی نہیں تھی کیونکہ مذاکرات کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ماحول کی فراہمی کےلئے زیادہ ذمہ داری ٹی ٹی پی پر ہی عائد ہوتی ہے مگر ہوا اس کے برعکس بنوں کے بعد ڈیرہ میں بھی دہشتگردانہ حملوں کے بعد اب ریاستی رٹ چیلنج کرنے والوں کے خلاف مؤثر کارروائی کے مطالبات میں شدت آتی جا رہی ہے۔

 اگر دیکھا جائے تو ماضی میں حکومت کی طرف سے عسکریت پسندوں اور شدت پسند تنظیموں کے ساتھ درجن سے زائد معاہدے ہوئے ان کا آغاز  بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں مولانا صوفی محمد کے ساتھ معاہدہ سے ہوا پھر یہ سلسلہ چلتا رہا مگر ہر بار معاہدے کے ذریعے عسکریت پسندوں نے محض وقت حاصل کیا اور اپنے ٹھکانے مضبوط بنائے نائن الیون سے قبل شدت پسندوں نے افغان سرحدی علاقوں کو اپنا مرکز بنایا اور جب امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا تو شدت پسند پاکستان کے قبائلی علاقوں میں وارد ہونے لگے اوراس دوران یہاں جو کچھ ہوا وہ پاکستانی قوم کے لیے   کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں دریں اثناء  جب پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کی بات کی جاتی تو بعض حلقوں کی طرف سے بے جا مخالفت اور پروپیگنڈہ شروع کیا جانے لگتا مگر اب باڑ کی ضرورت و اہمیت واضح ہوتی جا رہی ہے ۔

 کم و بیش اڑھائی ہزار کلومیٹر طویل پاک افغان بارڈر جس کو عرف عام میں ڈیورنڈ لائن بھی کہا جاتا ہے،عشروں سے مینجمنٹ سے محروم رہا ہے اور یہی وجہ تھی کہ اکثر اوقات اسے ایک لکیر سے زیادہ کی حیثیت نہیں دی گئی جس کی وجہ سے پھر قباحتیں بھی بڑھتی گئیں۔   ایک اندازے کے مطابق پاک افغان سرحد سے روزانہ 40 سے 50 ہزار افراد بلا روک ٹوک گزرتے تھے، ایک بھیڑ لگی ہوتی تھی یہ احساس ہی نہیں ہوا کرتا تھا کہ اس مقام سے بین الاقوامی سرحد عبور کی جارہی ہے، صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگا یا جاسکتا ہے کہ عدالت عظمیٰ تک نے بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ پاک افغان سرحد پر روسی حملے تک امن وامان کی صورتحال بہترین ہوا کرتی تھی۔ یہ پرامن ترین سرحد تصور کی جاتی تھی،تاہم 2001ء میں نائن الیون کے بعد امریکی حملے نے افغانستان میں جو آگ دہکائی اس کے شعلوں نے جلد ہی پاک افغان سرحد پر واقع قبائلی علاقہ جات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ا س کے بعد جب 2005ء میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی توجہ عراق پر مبذول ہوگئی تو ا ن علاقوں میں عسکریت پسندی تیز ی سے پھیلتی چلی گئی کیونکہ افغانستان کی طرف سے دہشت گردوں کی آمد ورفت میں اضافہ ہوتا گیا۔

بلا شبہ 2007ء سے 2013ء تک کاعرصہ انتہائی خطرناک رہا اور قبائلی علاقہ جات میں عسکریت پسندوں کاراج عملا ً بہت بڑے رقبہ پر قائم ہوگیاتھا، اس عرصہ میں صرف 24 فیصد رقبہ پر مکمل حکومتی رٹ قائم تھی۔ اس دوران پہلے ضرب عضب اورپھر آپریش رد الفساد کے ذریعہ تیز رفتارفوجی کاروائی کی گئی اور مختصر مدت میں عسکریت پسندوں کو واپس افغانستان میں دھکیل دیا گیاپاکستان اب تک دہشت گردی کی اس جنگ میں ستر ہزار قیمتی جانوں کی قربانی دے چکا ہے،جن میں چھ ہزار فوجی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ معیشت کو 110 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرناپڑا،بدقسمتی سے سابق دور حکومت میں میں مبینہ طور پر ہزاروں عسکریت پسندوں کی واپسی ہوئی اور اب کوشش کی جا رہی ہے کہ ہزاروں جانوں کی قربانی کو رائیگاں جانے دیا جائے دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق افغان عبوری حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف سخت کارروائی سے اس لیے گریزاں ہے کہ اسے یہ خوف ہے کہ اس صورت میں ٹی ٹی پی داعش کے ساتھ ہاتھ ملا لے گی جس سے افغانستان میں داعش کی کارروائیوں کو تقویت ملے گی۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ افغان نوجوانوں کی بڑی تعداد کی ہمدردیاں بھی پاکستان مخالف اس عسکریت پسند گروہ کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں ۔اس سے بھی افغان عبوری حکومت پریشان ہے گویا اپنی سر زمین کو تو محفوظ رکھا جارہا ہے اور اس کی قیمت پاکستانی قوم کو چکانے کے لئے مجبور کیا جارہا ہے مگر اب ایسا نہیں ہو سکتا اقوام متحدہ کی رپورٹ کے بعد اب پاکستان کے پاس بہت سے آپشنز آگئے ہیں جن کے استعمال میں وہ مکمل طور پر آزاد ہے پاکستان کی دفاعی اور عسکری صلاحیت پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے۔ اس کا مظاہرہ رواں برس کے اوائل میں ایران کے معاملے میں پوری دنیا کرچکی ہے بھارت کو بھی اسی طرح کا منہ توڑ جواب دیا جا چکا ہے۔ اب اگر افغان عبوری حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پاکستان کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا سکتا ہے، البتہ کالعدم ٹی ٹی پی کے امیر کا بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس پر افغان عبوری حکومت کی طرف سے شاید دباؤ پڑنے لگا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ حکومت پاکستان اور اس کے دفاعی ادارے اپنی سر زمین کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر طرح کے اقدام میں آزاد ہیں اور اب ایک ضربِ کاری کی ضرورت ہے تاکہ بیگناہوں کو خون میں نہلانے کے خواہشمندوں کو سبق سکھایا جاسکے تاہم اگر مذاکرات کسی کی خواہش ہیں تو اس کے لیے ماحول بنانے کی ذمہ داری بھی اسی کو پوری کرنا ہو گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts