روخان یوسفزئی
پشتو کے معروف ترقی پسند شاعر،ادیب،نقاد اور صحافی مرحوم سلیم راز نے اپنے ایک شعر میں کیا پتے کی بات کہی ہے کہ:
تاریخ دے روایت دے تجربہ دہ
چہ ماران پہ کلام نہ مری پہ اعصاء مری
مفہوم اس شعر کا یہ ہے کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے،روایت ہے اور تجربہ سے بھی ثابت ہے کہ سانپ کلام یا الفاظ سے نہیں مارے جاسکتے بلکہ اعصا کی زوردار ضرب سے ہی مارے جاتے ہیں۔مذکورہ شعر میں سلیم راز کا اشارہ موسیٰ علیہ السلام کے اس واقعہ کی جانب ہے جس میں فرعون کے بڑے بڑے جادوگروں نے ان پر بڑے بڑے اژدھے چھوڑے تھے مگر ان سارے اژدھوں کا علاج موسیٰ علیہ اسلام کے ایک اعصاء نے کرکے دکھایا۔ ہم بارہا انہی سطور میں ذکر کرتے آرہے ہیں کہ ملک میں موجود دہشت گرد ان کے سہولت کار، مالی اور مکانی معاونت کرنے والے کسی بھی رو رعایت کے مستحق نہیں۔نہ ہی یہ فتنہ الخوارج تقریروں، وعظ و نصحیت اور انتباہی بیانات سے راہ راست پر آنے والے ہیں۔ ان سانپوں،بچھووں اور اژدھوں پر کسی قسم کا ”کلام“ اثر نہیں کرتا اور نہ ہی ان کا خاتمہ ممکن ہے جب تک ان کے سر کچلے نہ جاتے، پاؤں تلے روند نہ جاتے تب تک یہ سانپ،بچھو اور اژدھے ہماری سرزمین پر رینگتے اور ہمیں ڈستے رہیں گے۔تاہم خوش آئند امر یہ ہے کہ گزشتہ روز آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے وزیرستان کے علاقے وانا کے دورہ کے دوران فوجی افسران اور جوانوں سے بات چیت کرتے ہوئے کھل کر اس بات کی وضاحت کی کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کی ہر شکل کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔سہولت کاروں اور مالی معاونت کرنے والوں کو بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔
اب جہاں تک دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف آرمی چیف کی وضاحت اور سیکورٹی فورسز کے عزم کا تعلق ہے اس پر کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔مگر یہ جنگ ہم سب کی مشترکہ جنگ ہے اور جب تک اس جنگ کے خلاف پوری قوم نہیں اٹھے گی تب تک اسے جیتا نہیں جاسکتا۔ کیا ہم یہ نہیں دیکھتے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی نے ہماری معیشت،کاروبار،روزگار،تجارت اور عام زندگی کو کس قدر متاثر کیا ہے؟ ملک کی تعمیر وترقی پر کتنے منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔صاحب ثروت اور بڑے بڑے کاروباری لوگوں کو بھتہ خوری کے نام سے تنگ کیا جارہا ہے، اغواء برائے تاوان کس حد بڑھ چکا ہے۔ مگر خیبرپختونخوا کی حکومت اب بھی راوی چین ہی چین لکھتا رہا ۔
مانا کہ اس حوالے سے اور بھی بہت ساری اندرونی اور بیرونی وجوہات ہیں تاہم ان وجوہات میں سے سب سے بڑی اور اہم وجہ جب سے ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہوئی ہے پاکستان میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی نقل وحمل میں تشویشناک اور خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔پاکستان بار بار افغان عبوری حکومت سے بڑے سفارتی انداز اور برادرانہ لب ولہجے میں مطالبہ کررہا ہے کہ وہ اپنے ملک میں دہشت گردوں اور پاکستان مخالف عناصر کے ٹھکانوں کا مکمل خاتمہ کرے اور وہاں سے ان عناصر نے جو پروپیگنڈا مہم خصوصاً سوشل میڈیا کے ذریعے جاری رکھا ہوا ہے، اس کو لگام دے اور پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کو اس کے حوالے کیے جائیں۔پاکستان کے اس احتجاج اور برادرنہ مطالبے کے ردعمل میں پہلے تو افغانستان یقین دہانیاں کرواتا آیا کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے نہیں دے گا اور دہشت گردوں کے خلاف وہ خود کارروائی کرے گا، لیکن اب تو یہ حقیقت دنیا پر کھلتی جارہی ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت اس حوالے سے چونکہ چنانچہ اور اگر مگر سے کام لے رہی ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ اور بیان بازی سے کام لے رہی ہے جبکہ عملی طور پر ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو افغان حکومت اپنی سرزمین پر اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے یا حکومت میں ایسے گروپس اور عناصر شامل ہیں جو اپنی مرضی اور مفادات کے لیے دہشت گردوں کو پروموٹ کررہے ہیں اور انہیں ہرقسم کی سہولت مہیا کی جارہی ہے۔ اس بات کا ایک ثبوت یہ کہ ایک طرف عبوری حکومت اور دوسری جانب القاعدہ اور داعش وغیرہ بھی سرگرم ہیں،جیسا کہ گزشتہ دنوں افغان طالبان کی اہم شخصیت خودکش دھماکے میں ماری گئی تھی۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گرد بھی وہاں مقیم ہیں اور انہیں نقل وحرکت کی پوری آزادی حاصل ہے ان کے تربیتی کمیپ بھی پوری طرح فعال ہیں، جس کی موجودگی میں کسی دوسرے ثبوت کی ضرورت نہیں کہ افغان عبوری حکومت چاہتی ہی نہیں کہ وہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف موثر اور مربوط کارروائی کرے۔
لہذا پاکستان کو مزید افغان عبوری حکومت کے ان طفل تسلیوں،زبانی جمع خرچ اور یقین دہانیوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیئے بلکہ سلیم راز کے اس شعر پر عمل کرنا ہوگا کہ
“سانپ کلام سے نہیں بلکہ اعصاءسے مارے جاتے ہیں”
(27 دسمبر 2024)