GHAG

محسن کشی کے مرتکب افغان طالبان

ابصار عالم

یہ بات قابل افسوس ہے کہ افغانستان کے طالبان سمیت جن لاکھوں افغانوں کو عالمی دباؤ اور اندرونی مخالفت کے باوجود پاکستان نے کئی دہائیوں تک پالا، وہ محسن کشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد گروپ کو نہ صرف پاکستان کے خلاف استعمال کررہے ہیں بلکہ یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ افغان طالبان اور ان کی عبوری حکومت کے مہمان ہیں اور ان کا تحفظ “پشتونولی” کا تقاضا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان کی نظر میں ان کی وضع کردہ پشتونولی ان احساسات سے زیادہ اہم ہے جو کہ پاکستان نے بوجوہ ان پر کیے ہیں اور یہ اب ان احساسات کا صلہ اس صورت میں دے رہے ہیں کہ پاکستان پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں ، قاتلوں اور لٹیروں کو انہوں نے پناہ دے رکھی ہے؟

پاکستان کی افغان پالیسی کے نقائص اور کمزوریاں اپنی جگہ مگر اس حقیقت کو کیونکر جھٹلایا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے مختلف ادوار میں موجودہ افغان حکمرانوں سمیت ہر طبقے کے لاکھوں باشندوں کو پناہ دی، ان کو روزگار اور ملازمتوں کی سہولیات فراہم کیں اور عالمی، علاقائی دباؤ کے باوجود بدنامی اٹھاتے ہوئے ان تمام اقدامات کی بھاری قیمت بھی ادا کی۔ اگر افغان حکومت کا موجودہ پاکستان مخالف رویہ یہ ثابت کرنے کے لیے ہے کہ وہ مقبول عام تاثر کے برعکس پاکستان کی پراکسی نہیں تو بھی اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دہشت گردوں کو پناہ دینے کے علاوہ ان کی سرپرستی کرتے ہوئے ان کو پاکستان کے شہریوں اور فورسز کے قتل عام کی اجازت دی جائے اور اس خونی کھیل کا دفاع بھی کیا جائے۔ اوپر سے یہ توقع بھی رکھی جائے کہ پاکستان  پکتیکا ایئراسٹرایکس جیسی کارروائیاں بھی نہیں کرے گا۔ پکتیکا میں جن علاقوں یا ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا وہاں سے گھنٹوں تک آگ کے شعلے بلند ہوتے دکھائی دیے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے وہاں دہشت گرد ٹھکانوں ہی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ پاکستان نے اس دوران متعدد دیگر کارروائیاں بھی کیں اور مزید کا حق بھی محفوظ رکھتا ہے کیونکہ اب افغانستان کے طالبان اور ان کے سرکاری حکام کھلے عام ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔

اطلاعات تو یہ ہیں کہ پاکستانی ریاست اس ضمن میں مزید کسی رعایت یا مفاہمت کی بجائے اس نوعیت کی مزید کارروائیاں کرے گا اور اگر افغان حکومت اور طالبان کو یہ خوش فہمی لاحق ہے کہ وہ بھارت یا کسی اور پاکستان مخالف طاقت کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوں گے تو اس غلط فہمی سے نکلا جائے۔

پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جاری دہشت گردی کی حالیہ صورتحال کی ذمہ داری عمران خان، جنرل (ر) فیض حمید اور اس وقت کے بعض دیگر پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے سابق دور حکومت میں ہزاروں کی تعداد میں دہشت گردوں کو معافیاں دیکر پاکستان کی سلامتی کو داؤ پر لگانے کی پالیسی اختیار کی۔ ان تمام کا بھی محاسبہ ہونا چاہیے کیونکہ ایسی ہی پالیسیوں کے باعث پاکستان کو آج موجودہ صورتحال کا سامنا ہے۔

( ابصار عالم پاکستان کے نامور اینکر پرسن اور تجزیہ کار ہیں۔ غگ نے ان کے ایک حالیہ تبصرے کے چیدہ نکات کو تحریری شکل میں منتقل کرنے کی کوشش کی ہے)

(16 جنوری 2025)

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts