عقیل یوسفزئی
اگست 2021 کو جب ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت اور اس کی 3 لاکھ سے زائد فورسز نے امریکہ اور نیٹو کو کوئی اطلاع دیے بغیر انتہائی عجلت میں کسی مزاحمت کے بغیر سرینڈر کیا تو کابل سمیت پورے افغانستان میں بدترین نوعیت کا انتظامی بحران پیدا ہوگیا اور افغان طالبان کو نہ چاہتے ہوئے ہنگامی حالات میں کابل کا کنٹرول سنبھالنا پڑا۔ بعض دیگر کی طرح ان کا بھی خیال تھا کہ افغان فورسز اشرف غنی کے دعووں کے مطابق کم از کم کابل میں مزاحمت کریں گی اور ماضی کی طرح کابل کو فتح کرنے میں انہیں لڑنا پڑے گا مگر ہوا اس کے برعکس اور اشرف غنی کے اچانک کابل چھوڑ جانے کے باعث چین آف کمانڈ کے ٹوٹ جانے سےوہ پورا نظام دھڑام سے گر گیا جس کو کھڑا کرنے پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اربوں نہیں بلکہ کھربوں ڈالرز خرچ کیے تھے۔
اس ہنگامی صورتحال نے امریکہ کے بھی اوسان خطا کردیے اور ان کو باگرام ائربیس سمیت دیگر اہم مراکز سے پرامن طریقے سے نکل جانے کی فکر لاحق ہوگئی۔ اس تناظر میں بعض امریکی رپورٹس میں بعد میں کہا گیا کہ پُرامن انخلاء کے لیے امریکہ نے بعض دیگر اقدامات کے علاوہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے بھی تعاون مانگا اور صورتحال اتنی گھمبیر ہوگئی کہ امریکی سی آئی اے کے سربراہ کے علاوہ آئی ایس آئی کے چیف جنرل فیض حمید بھی ہنگامی طور پر کابل پہنچ گئے۔
اگلے چند روز میں باگرام ائربیس سمیت متعدد دیگر مراکز سے ایسے حالات میں امریکہ نے اپنے انخلاء کو آپریشنل کیا کہ ان کو اسلحہ سمیت اپنا دوسرا ضروری سامان اٹھانے کا موقع بھی نہیں ملا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ اور نیٹو نے اربوں کا سامان اپنے پیچھے چھوڑتے ہوئے بھاگ جانے میں عافیت سمجھی اور اس سامان میں اربوں ڈالرز کا وہ جدید اسلحہ بھی شامل تھا جس کو لے جانے کے لیے امریکہ نے دو ماہ کا ایک فریم ورک رکھا ہوا تھا اور یہ تمام چیزیں دوحہ معاہدے میں افغان طالبان کے ساتھ طے کی جاچکی تھی۔
مارچ 2024 کو سامنے آنیوالی ایک سیکورٹی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے انخلاء کے وقت اس تمام صورتحال کے تناظر میں جو اسلحہ چھوڑا اس کی تعداد 3 لاکھ سے زیادہ تھی اور اس میں جدید ہتھیاروں کے علاوہ بھاری اسلحہ بھی شامل تھا جس میں سے تقریباً 20 فی صد بعد میں ٹی ٹی پی کے ہاتھ لگ گیا یا ایک پلاننگ کے تحت ٹی ٹی پی کو دیا گیا۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکہ نے افغان فورسز کو تقریباً 19 ارب ڈالرز کا سامان دیا مگر یہ اس وقت کی بات ہے جب ایک مرحلے کے دوران یہ طے پایا کہ امریکہ ایک وسیع البنیاد عبوری حکومت کے قیام کے تناظر میں سیکورٹی معاملات چلانے کے لیے افغان فورسز اور حکومت کو سپورٹ کرتا رہے گا۔ تاہم بعد میں جب ڈاکٹر اشرف غنی نے دوحہ معاہدے کی پراسیس سے خود کو الگ رکھنے پر احتجاج اور مزاحمت کا راستہ اختیار کیا اور ردعمل میں ایک طے شدہ شیڈول کے برعکس حامد کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ساتھ قطر جانے کی بجائے وسطی ایشیائی ریاستوں کے راستے متحدہ عرب امارات پہنچ گئے تو پوری پلاننگ برباد ہوکر رہ گئی اور افغان فورسز منتشر ہو کر یا تو سرینڈر کر گئیں، یا زیرزمین چلی گئیں یا ایران اور بعض وسطی ایشیائی ریاستوں میں پناہ کی تلاش میں چلی گئیں۔ ایسا کرتے وقت وہ اسلحہ اور سازو سامان بھی ساتھ لے جایا گیا جو ان کے ہاتھ لگا اور اس سامان میں بعض ہیلی کاپٹرز بھی شامل تھے جن کی واپسی بعد میں طالبان کے کنٹرول لینے کے بعد ممکن بنائی گئی۔ امریکہ نے ہنگامی انخلاء کے وقت کوشش کی کہ بعض جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کو ناکارہ بنایا جائے مگر طالبان نے ان کو بعد ازاں قابل استعمال بنایا۔
ایک تھیوری یہ بھی رہی کہ امریکہ نے جان بوجھ کر ایک پالیسی کے تحت بہت بڑی تعداد اور مقدار میں یہ اسلحہ اور جنگی سازو سامان افغانستان میں چھوڑ دیا تھا تاکہ اس کے انخلاء کے بعد یہ ملک ایک بار پھر خانہ جنگی کی صورتحال سے دوچار ہو مگر طالبان نے ایسا نہیں ہونے دیا تاہم یہ ضرور ہوا کہ یہ جدید اور خطرناک اسلحہ اگست 2021 کے بعد ٹی ٹی پی کے ہاتھوں پاکستان کے خلاف شدت کے ساتھ استعمال ہونے لگا اور سال 2023 کو پاکستان پر جو لاتعداد حملے کئے گئے ان میں یہ اسلحہ استعمال ہوتا رہا۔ اس اسلحہ میں تھرمل نایٹ وژن ہتھیار بھی شامل تھے۔
مارچ 2024 کو جاری کردہ ایک امریکی رپورٹ میں پینٹاگون کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ امریکہ نے افغان فوج کو 4 لاکھ 27 ہزار 300 جنگی ہتھیار فراہم کئے تھے جن میں سے تقریباً 3 لاکھ ہتھیار انخلاء کے دوران باقی رہ گئے تھے۔ یورو ایشین ٹائمز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس اسلحہ کو پاکستان کی سیکورٹی فورسز پر استعمال کرنا شروع کردیا جس سے پاکستان کو بہت نقصان پہنچا۔
دوسری جانب پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے جو معلومات اکھٹی کیں ان کے مطابق 2023 کے دوران پاکستان پر کرائے گئے بڑے حملوں میں یہ امریکی اسلحہ ہی استعمال کیا گیا۔ پشاور، باجوڑ، ژوب، تربت، میران شاہ، ڈی آئی خان، گوادر، بنوں اور متعدد دیگر علاقوں میں کرائے گئے حملوں کے دوران اس امریکی اسلحہ کے استعمال کے ٹھوس شواہد ملے۔
اس دوران جہاں متعدد بار امریکی حکام نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ انہوں نے جان بوجھ کر یہ اسلحہ افغانستان میں اس لیے چھوڑ رکھا تھا کہ اسے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائے، وہاں افغان طالبان کی عبوری حکومت کے اہم عہدیدار بھی اس تاثر کی نفی کرتے رہے کہ انہوں نے کسی پالیسی کے تحت یہ اسلحہ پاکستان یا کسی اور کے خلاف استعمال کرنے کے لیے ٹی ٹی پی کو فراہم کیا ہے۔
ان تمام دعووں سے قطع نظر تلخ حقیقت یہی رہی کہ یہ اسلحہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ہاتھوں پاکستان کے خلاف مسلسل استعمال ہوتا رہا بلکہ اس قسم کی اطلاعات بھی سال 2024 کے اوائل میں موصول ہوتی رہیں کہ اس امریکی اسلحے کا ایک بڑا حصہ القاعدہ اور بعض سنٹرل ایشین تنظیموں کے ہاتھ بھی لگا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ القاعدہ کے بارے میں فروری 2024 کے دوران امریکی حکام خود اعتراف کرتے پائے گئے کہ اس کی طاقت اور صلاحیت میں ایک بار پھر اضافہ ہونے لگا ہے۔