GHAG

دہشتگردی کے خاتمے کی ضرورت پر ماہرین کی آراء ، تجاویز

نامور ماہرین اور تجزیہ کاروں نے دہشت گردی اور شدت پسندی کے علاوہ قومیتوں کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کی کوششوں اور منفی پروپیگنڈا پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر ان مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ایک صفحے پر آنا پڑے گا۔

نامور صحافی، تجزیہ کار اسماعیل خان “سنوپختونخوا ایف ایم” کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو سیکورٹی کے شدید چیلنجز کا سامنا ہے ، خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کو اس ضمن میں وفاقی حکومت کے ساتھ بات کرنا ہوگی تاہم ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کو پارٹی کے اندر مخالفت کا سامنا ہے اور جب بھی وہ وفاقی حکومت سے کوئی بات کرتے ہیں ان کے مخالفین متحرک ہوجاتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں بعض بنیادی شکایات کے باوجود افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ ری انگیجمنٹ کے امکانات کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے کیونکہ سیکورٹی کے مسائل کافی پیچیدہ ہیں۔

سینئر صحافی قیصر بٹ کے مطابق بلوچستان کی پسماندگی اور مسائل کی زیادہ ذمہ داری وہاں کے سرداروں پر عائد ہوتی ہے تاہم ان عناصر کی سخت حوصلہ شکنی کی اشد ضرورت ہے جو کہ مختلف قومیتوں کے درمیان منافرت پھیلانے میں مصروف ہیں اور پنجابی باشندوں کے خلاف بلوچستان میں ہونے والی کارروائیوں کا دفاع کرتے ہیں۔

اینکر پرسن حسن خان کے بقول اس سے بڑا مذاق دوسرا کوئی ہو ہی نہیں سکتا کہ افغانستان کی عبوری حکومت اپنی سرزمین پر ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں کی موجودگی اور سرپرستی سے انکار کرے۔ انہوں نے سنو پختونخوا کو بتایا کہ پاکستان کے علاوہ اقوام متحدہ اور امریکہ بھی مسلسل یہ کہتے آرہے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور اس تمام مہم جوئی کو افغان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت سیکورٹی کی صورتحال سے لاتعلق دکھائی دیتی ہے اور اس کی توجہ کرپشن اور اپنے لیڈر کی خوشنودی پر مرکوز ہے جبکہ وفاقی حکومت کی کارکردگی کو بھی اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔

صحافی افتخار فردوس کے مطابق پاکستان کو ٹی ٹی پی ، داعش اور بعض دیگر گروپوں کے علاوہ بلوچستان میں بی ایل اے اور ایسے دیگر شدت پسند گروپوں کی کارروائیوں اور عالمی طاقتوں کی پراکسیز کا بھی سامنا ہے تاہم سیاسی اور حکومتی سطح پر ہمیں وہ سنجیدگی نظر نہیں آتی جس کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ریاست کو فیک نیوز اور منفی پروپیگنڈے کی مہمات کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔

نامور اینکر پرسن سلیم صافی کے بقول خیبرپختونخوا کی سیکیورٹی صورتحال کو کسی صورت اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ صوبے کی حکومت ہمیں بدامنی کی جاری لہر سے لاتعلق دکھائی دیتی ہے اور وفاقی حکومت نے بھی اپنی ذمہ داریاں سیکورٹی فورسز پر چھوڑ دی  ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts