عقیل یوسفزئی
سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو خصوصی اور خواتین کی نشستوں کے معاملے پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے مذکورہ پارٹی کو یہ نشستیں دینے کا حکم دیا ہے جس کے بعد نمبر گیم میں پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں سب سے بڑی پارلیمانی قوت کے طور پر سامنے آگئی ہے ۔ پشاور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں نے جشن منایا اور ریلیاں نکالیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مسئلے کو الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کے پس منظر میں ٹھیک طریقے سے ہینڈل نہیں کیا جس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن نے ان نشستوں پر الیکشن رولز کے تحت سخت موقف اختیار کیا اور پارٹی نے حسب روایت اس معاملے کو بھی عدالت میں چیلنج کردیا ۔ نشستوں کی بحالی کا جو فیصلہ سامنے آیا ہے بہت سے حلقوں کے لئے یہ خلاف توقع ہے کیونکہ اس ضمن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی شرائط بلکل واضح ہیں اور ان شرائط کو پارلیمنٹ کی درکار قانون سازی کا مینڈیٹ بھی حاصل ہے ۔
اس بات سے قطع نظر کہ کسی بھی پارٹی کو اس کے مینڈیٹ سے محروم نہیں رکھا جاسکتا تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ اس فیصلے نے مزید متعدد بڑے سوالات کھڑے کردیے ہیں اور لگ یہ رہا ہے کہ اب سیاسی کشیدگی میں مزید اضافے کا راستہ ہموار ہوگا ۔ بعض ماہرین کے مطابق جاری صورتحال نے نظام کو لپیٹنے کے خدشات کو مزید گہرا کردیا ہے اور اگر خدانخواستہ نظام پر چوٹ لگ گئی تو اس کے نتائج کی ذمہ داری مزاحمت کرنے والی پارٹیوں اور عدلیہ پر عائد ہوگی ۔ ماضی میں بھی جب جب نظام کو لپیٹا گیا اس کا راستہ ہموار کرنے میں دوسروں سے زیادہ مختلف سیاسی جماعتوں کا رویہ بنیادی سبب بنتا رہا ۔ اب کے بار بھی اگر ایسا کچھ ہوا تو سیاسی قوتیں اس صورتحال کی ذمہ داری سے خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے دے سکے گی ۔ اس لیے لازمی ہے کہ تصادم اور بلیم گیم کا رویہ اور سلسلہ ترک کرکے ملک کو درپیش بعض سنگین چیلنجز کا ادراک کیا جائے اور ان چیلنجز ، مشکلات سے نکلنے کی کوششوں میں سیاسی جماعتوں سمیت ہر ادارہ اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کریں ۔