ایڈیٹوریل
چیف منسٹر سیکرٹریٹ میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت صوبائی اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس جمعہ کے روز پشاور میں منعقد ہوا جس میں دوسروں کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی، کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل عمربخاری اور چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا بھی شریک ہوئے۔ اجلاس میں صوبے خصوصاً ضلع کرم کی سیکورٹی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور متعدد اہم فیصلے کیے گئے۔ اس کے علاوہ جانی خیل اور تیراہ کی جاری سیکورٹی حالات پر بھی شرکاء کو بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر طے پایا کہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور متعلقہ سیکورٹی ادارے ایک پیج پر رہتے ہوئے درکار اقدامات کریں گے اور کرم کو متحارب گروپوں کے قایم کردہ بنکرز وغیرہ سے چھٹکارا دلایا جائے گا۔
جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شریک اعلیٰ سول، عسکری حکام نے ایک جامع پلان ترتیب دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ کرم سمیت تمام ایسے علاقوں کے عوام کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے آمدورفت، سپلائی لائن اور ضروریات زندگی کی بحالی، فراہمی کے لیے نہ صرف پولیس اور ایف سی کے ذریعے سیکورٹی فراہم کی جائے گی بلکہ دیگر اقدامات کے علاوہ ائیر سروس بھی شروع کی جائے گی تاکہ عوام کی مشکلات کا ازالہ کیا جاسکے۔ کرم میں متحارب گروپوں کے قایم کردہ بنکرز (مورچے) خالی کرنے کے لیے ڈیڈ لائن دی گئی اور لائحہ عمل طے کیا گیا جبکہ اسلحہ کے استعمال کا راستہ روکنے اور زمینوں، حد بندیوں کے مسائل کے حل کے لیے بھی ایک مربوط اور مستقل نظام کی پلاننگ پر غور کیا گیا۔
اس موقع پر عسکری حکام کی جانب سے بنوں ، تیراہ اور ڈی آئی خان کے بعض شورش زدہ علاقوں کی صورتحال پر بریفنگ دی گئی جس کے بعد طے پایا کہ ان علاقوں کو دہشتگردی سے صاف کرنے کے لیے مختلف آپشنز پر کام کیا جائے گا جن میں عارضی طور پر ایک محدود مدت کے لیے مقامی آبادی کی نقل مکانی کا اقدام بھی شامل ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کرم کی صورتحال پر پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کرنے والے سیاسی، سماجی حلقوں کے منفی بیانات اور سوشل میڈیا کے ذریعے فیک نیوز پھیلانے والے عناصر کے خلاف کارروائیاں کرنے کو بھی ناگزیر قرار دیا گیا۔
اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں خصوصی طور پر شریک وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے فوجی حکام اور صوبائی حکومت کو وفاق کی جانب سے اس تمام صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہر درکار تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکام کو جب بھی وفاقی حکومت کی مدد اور معاونت کی ضرورت ہوگی وہ فراہم کی جائے گی اور یہ کہ سیکورٹی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تمام ادارے ایک پیج پر رہیں گے۔
“دیر آید درست آید” کے مصداق اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں سے امید پیدا ہوگئی ہے کہ کرم کے حالات پر جلد قابو پانے کی کوششوں کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے اور صوبے کی سیکورٹی صورتحال پر تمام فریقین یا اسٹیک ہولڈرز کے درمیان ایک مشترکہ لائحہ عمل کا آغاز ممکن ہوپائے گا تاہم اس تلخ حقیقت کا سب کو ادراک ہونا چاہیے کہ ایسے مسائل بار بار اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں اور جنوبی اضلاع میں سول اداروں کی فعالیت اور کارکردگی نہ صرف بہت کمزور ہیں بلکہ عملاً نہ ہونے کی برابر ہے۔ صوبائی حکومت اور وفاق کے درمیان جاری کشیدگی بھی مسائل کے حل کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے جبکہ بیڈ گورننس اور فنڈز کی عدم فراہمی بھی ایک بڑا مسئلہ بنتا آرہا ہے ۔
پی ٹی آئی کی موجودہ صوبائی حکومت سے قبل جب صوبے میں ایک نگران حکومت قائم تھی تو محدود اختیارات اور وسائل کے باوجود اس حکومت نے قبائلی علاقوں کی سیکورٹی کے علاوہ ان علاقوں کی تعمیر نو اور سول اداروں کی فعالیت پر کافی توجہ دی جس کے باعث نہ صرف یہ کہ امن و امان کے حالات میں بہتری واقع ہوئی بلکہ عوامی مسائل بھی حل ہونے لگے اور عوام سیکورٹی فورسز کے ساتھ تعاون بھی کرتے دکھائی دیے ۔ مگر موجودہ صوبائی حکومت اس سلسلے کو آگے بڑھانے سے لاتعلق رہی جس کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔
ایک جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی فورسز خصوصاً پاک فوج نے خیبرپختونخوا کے ان شورش زدہ علاقوں میں بے شمار کارروائیاں کرتے ہوئے رواں برس 900 سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے جبکہ تقریباً 200 دہشت گرد گرفتار کیے گئے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ فوج جن علاقوں کو کلیئر کراتی ہے اس کی واپسی کے بعد سول ادارے وہاں امن قائم نہیں رکھ پاتے کیونکہ امن کا قیام صوبائی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دہشت گرد گروپ پھر سے موقع پاکر ان علاقوں میں گھس آتے ہیں۔ اس صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ تمام تر درکار اقدامات کو یقینی بناتے ہوئے سوات ماڈل کے طور پر سول اداروں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے اور کرم کو مزید سانحات سے بچانے کے لیے ایک سخت گیر پالیسی کا اطلاق کرتے ہوئے روڈ میپ تیار کرکے آگے بڑھا جائے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کے بعد پنجاب حکومت نے بھی کرم کے متاثرین بالخصوص مریضوں کے علاج اور سہولیات کی فراہمی کے ائیر سروس کے آغاز کے علاوہ یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ بعض مریضوں کو لاہور اور راولپنڈی شفٹ کیا جائے گا تاہم بنیادی کردار خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کا بنتا ہے کہ وہ قبائلی علاقوں اور جنوبی اضلاع پر خصوصی توجہ مرکوز کرے اور اس ضمن میں فورسز کے ساتھ درکار تعاون کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے مسائل کے اسباب کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرے کیونکہ خیبرپختونخوا مزید تجربات اور لاتعلقی کا متحمل نہیں ہوسکتا اور عوام نہ صرف تحفظ چاہتے ہیں بلکہ وہ ضروریات اور سہولیات کی فراہمی کا بھی مطالبہ کرتے آرہے ہیں جو کہ ان کا حق بھی بنتا ہے۔ ان تمام اقدامات کی ذمہ داری کو پورا کرنا صوبائی حکومت کے فرائض میں شامل ہے اس لیے لازمی ہے کہ سیاسی محاذ آرائیوں کی بجائے عوامی مسائل کے حل پر توجہ دی جائے اور عوامی نمائندے عوام کے درمیان رہ کر ان کو تحفظ کا احساس دلائیں۔
(21 دسمبر 2024)