GHAG

ارشد ندیم ہمارا اصلی ہیرو

تحریر: اے وسیم خٹک

ارشد ندیم کی کہانی ایک ایسے نوجوان کی ہے جس نے غریبی، بے بسی اور نامساعد حالات کا سامنا کرتے ہوئے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔ وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جہاں وسائل کی کمی اور موسم کی بے رخی سے واقفیت نہ ہونے کے باوجودارشد نے اپنی محنت اور جذبے سے دنیا کو حیران کر دیا۔

ارشد کا سفر آسان نہ تھا، انکی کامیابی ان دعاؤں کا نتیجہ ہے جو مایوسی کی راہ میں روشنی کی کرن بنی رہیں۔ قوم کی دعائیں تو اپنی جگہ، لیکن ماں کی دعائیں ہر حال میں اس کے ساتھ تھیں، جو ارشد کے سفر کا سب سے بڑا سہارا بنیں۔

ایک غریب خاندان کا وہ بچہ جس کو نہ تو موسم کی پرواہ تھی اور نہ ہی ملک کی اشرافیہ نے اسے کوئی خاص توجہ دی، وہ اپنی محنت میں مصروف رہا۔ خوش قسمتی سے، اسے اولمپکس میں موقع دیا گیا،ورنہ عموماً ملک بھر میں کھیلوں کے میدان میں تعلقات اور سفارشیں ہی آگے بڑھاتی ہیں۔

ارشد ندیم نے میاں چنوں سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کی حیثیت سے، فطرت کے قوانین سے جنگ لڑی اور پیرس میں 800 گرام کے ایک نیزے کو اتنی دور پھینکا کہ اس نے ایک 118 سالہ ریکارڈ توڑ دیا۔ اس سے پہلے کوالیفائنگ راؤنڈ میں چوتھی پوزیشن حاصل کرنے پر کچھ لوگوں نے اس کے مستقبل پر شک کیا تھا، مگر ارشد نے سب کو غلط ثابت کر دیا۔

ارشد ندیم کی اس کامیابی نے نہ صرف ملک کا نام روشن کیا بلکہ درجنوں افسروں کی ترقیوں کے دروازے بھی کھول دیے ہیں۔ اگر خدانخواستہ ارشد ہار جاتا، تو شاید قوم اسے یاد بھی نہ رکھتی اور وہ پیرس سے واپسی کے کرائے کے لئے بھی ترستا۔ مگر اب ارشد ندیم ایک ہیرو بن چکا ہے اور اس پر پلاٹوں، پیسوں اور میڈیا کی بارش ہو رہی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے کھیلوں کے ذمہ داران شاید ہی ارشد ندیم جیسے چھپے ہوئے ہیروں کو تراشنے کی کوشش کریں گے جو ملک کے مختلف حصوں میں موجود ہیں۔

ارشد ندیم نے جو کچھ حاصل کیا ہے، وہ صرف ایک دن کی محنت کا نتیجہ نہیں، بلکہ چار سالہ ریاضت کا ثمر ہے۔ اس نے عالمی معیار کی جیولین بھی ایک ہی رکھی تھی، جو کچھ مہینے پہلے خراب ہو گئی تھی۔ اس کے بعد بہت محنت اور دفاتر کے چکر لگانے کے بعد ہی اسے ایک نئی جیولین ملی، جس پر افسران نے اپنا احسان جتایا۔

پڑوسی ممالک کے پاس درجنوں جیولینز تھیں، جبکہ ارشد ایک ہی جیولین کے ساتھ پریکٹس کرتا رہا، اور وہ بھی گرمی کے موسم میں، جبکہ دیگر ممالک کے کھلاڑی پیرس کے موسم کے مطابق خود کو تیار کر رہے تھے۔ ارشد نے پسینے میں شرابور ہو کر پریکٹس جاری رکھی، اور آج وہ اس چار سالہ ریاضت کا پھل پا چکا ہے۔

یہ کامیابی ایک واضح اشارہ ہے کہ اگر جذبہ، حوصلہ اور محنت ہو تو وسائل کی کمی بھی انسان کے راستے میں حائل نہیں ہوسکتی۔ ارشد ندیم کی کہانی ایک مثال ہے، کہ جب آپ کے پاس ماں کی دعائیں، جذبہ اور حوصلہ ہو تو کوئی بھی رکاوٹ آپ کو روک نہیں سکتی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts