خالد خان
(دوسرا حصہ)
جنوری 1914 میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب کی سربراہی میں دیو بند میں منعقد ہونے والے خفیہ اجلاس میں ہندوستان کی آزادی کے لیئے مسلح فوجی جدوجہد کا فیصلہ ہوا۔ اجلاس کے دیگر شرکاء میں خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان، مخفی صاحب، مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا عزیر گل اور مولانا فضل ربی صاحب شامل تھے۔ اس اجلاس کے لیئے شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب نے باچا خان کو خط لکھ کر مدعو کیا تھا۔ اس سے قبل بھی ہندوستان کی آزادی کے لئے پرتشدد جدوجہد پر ان اکابرین کی متعدد اجلاس منعقد ہوئے تھے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور عبیداللہ سندھی کی رائے تھی کہ بونیر میں مقیم بریلوی کے شہداء کے مجاہدین کے ساتھ مل کر اس مقدس کام کا آغاز کیا جائے اور بونیر میں قائم انکے مرکز کو نئے شامل ہونے والے مجاہدین کی عسکری تربیت کے لیے استعمال کیا جائے۔ پرتشدد یا گوریلا کاروائیوں کے ذریعے ہندوستان کی آزادی کا حل خود باچا خان نے بھی دیوبند کے اکابرین سے پہلے سوچا ہوا تھا۔ ان کی نظریں بھی بریلوی کے شہداء کے مجاہدین اور مرکز پر تھیں جو بونیر میں قائم تھا۔ باچا خان نے مجاہدین سے گفت و شنید اور مرکز کا جائزہ لینے کے لیئے مخفی صاحب کو بونیر بھیجا تھا۔ مخفی صاحب نے ان مجاہدین کے ساتھ غاروں میں کئی راتیں گزاری اور سیر حاصل مباحثے کیے۔ واپسی پر انہوں نے تمام معلومات باچا خان کے ساتھ شریک کی اور دونوں اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مجاہدین اب چلے ہوئے کارتوس ہیں اور بونیر کا مرکز بھی غیر محفوظ ہے۔ باچا خان نے دیوبند میں منعقد ہونے والے خفیہ اجلاس کو دلائل کے ساتھ قائل کیا کہ عسکری مرکز کے لئے کوئی اور ٹھکانہ ڈھونڈا جائے۔ اجلاس میں مرکز کے قیام کے لئے آزاد پشتون قبائلی علاقے میں جگہ منتخب کرنے کا فیصلہ ہوا اور یہ ذمہ داری باچا خان کو سونپ دی گئی۔ اپنی خود نوشت سوانح عمری “میری زندگی اور جدوجہد” کے صفحہ نمبر 55، 56، 57 اور 58 پر ” آزاد علاقے میں مرکز کی تلاش” کے عنوان سے باچا خان یوں رقم طراز ہوتے ہیں۔
“فیصلہ اس بات پر ہوا کہ ہمارا ایک وفد آزاد علاقے میں مرکز کی جگہ کا انتخاب کریں۔ اس کام کے لیے مجھے اور مخفی صاحب کو منتخب کیا گیا کہ پہلے ہم قبائلی علاقوں میں گھوم کر جگہ کا انتخاب کریں۔پھر ان ساتھیوں کو مطلع کردینگے اور بعد میں سندھی صاحب جاکر وہ جگہ دیکھ لیں، اگر ان کو جگہ پسند آئی تو وہاں کام شروع کردیا جائے گا۔فیصلے سے پہلے میں اس کام کے لیے بہت پرجوش تھا مگر جب فیصلہ ہوگیا اور ذمہ داری مجھ پر آن پڑی تو میرا رواں رواں کانپ اٹھا،جیسے ایک بھاری بوجھ مجھ پر آن پڑا ہو۔جب مجلس مشاورت ختم ہوئی اور ہم اپنی اپنی قیام گاہ پہنچے تو میں تنہائی میں خوب رو دیا۔اس سے میرے دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوگیا اور پھر میں سو گیا۔جب میں صبح اٹھا تو خود کو تسلی دی اور گاوں چلا آیا۔ سخت سردی کا موسم تھا اور گھانیاں چل رہی تھیں۔میں نے اور مخفی صاحب نے جانے کے لیے صلاح مشورہ کیا۔ہم نے وقت مقررہ پر تخت بھائی سٹیشن پر ملنے کا پروگرام بنایا۔ تخت بھائی ہمارے گاؤں سے 12 میل کی مسافت پر واقع ہے۔میں نے اپنی روانگی بہت پوشیدہ رکھی۔ ایک تو مجھے حکومت کا خوف تھا، دوسرا والدہ سے اجازت نہ ملنے کا ڈر تھا۔میں نے والدہ سے اجمیر شریف جانے کا بہانہ بنایا۔ جب میری بیوی نے یہ سنا کہ میں اجمیر شریف جارہا ہوں تو بہت خوش ہوگئی۔اس لئے کہ میرے سسرال والے اجمیر شریف کے معتقدین میں سے ہیں۔ میرے سسر ہر سال اجمیر شریف جاتے تھے۔ان کا عقیدہ تھا کہ مجھے یہ اولاد اجمیر شریف سے عقیدت کی بدولت دی گئی ہے اور یہ انکے چھیلے ہیں۔ اجمیر کے درویش ہر سال انکے ہاں آتے تھے۔اور اپنے ساتھ ڈھیر ساری رقم اور نذرانے لے کر جاتے تھے۔جب عبدالغنی پیدا ہوا تو اجمیر شریف کے درویش(فقیر) رجڑ آئے ہوئے تھے۔ جب ان کو علم ہوا کہ خان( یعنی میرے سسر کا) نواسا ہوا ہے تو اس خیال سے میرے ہاں آئے کہ یہ بھی تگڑی آسامی ہے، اس کو پھانسنا چاہیئے لیکن ان کا جادو مجھ پر نہ چل سکا۔ لمبے چوڑے قصے لے کے ایسے بیٹھ گئے اور کہا کہ جیسے غنی اجمیر شریف کا چھیلا ہو۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ میرا چھیلا ہے اجمیر شریف کا نہیں ہے۔وہ بہت حیران ہوئے کہ یہ کس قسم کا شخص ہے۔مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔میں رات گزارنے محمد ناڑی آگیا۔ اگلی صبح گھوڑے پر بیٹھ کر تخت بھائی روانہ ہوا۔ ظہر کے قریب سٹیشن پہنچ گیا۔مخفی صاحب پہلے سے پہنچے ہوئے تھے۔میں نے گھوڑا نوکر کو دے کر رخصت کردیا۔ریل گاڑی عصر کے وقت درگئی جاتی تھی۔ہم شام کو ریل گاڑی میں درگئی پہنچ گئے۔سٹیشن سے باہر کرائے کے تانگے کھڑے تھے۔ہم دونوں تانگے میں بٹ خیلہ کے لئے چل پڑے۔ملاکنڈ کے چڑھائی پر پولیس چوکی تھی جو ہر تانگے کی تلاشی لیتے تھے۔ ہمارے تانگے کی تلاشی لینے کے لیے تانگے کو گھیر لیا، سوالات پوچھنا شروع کئے۔ میں گھبرا گیا کہ کہیں پہچان نہ لیں اور ان کو کوئی شک نہ گزرے اس لئے کہ اس وقت(قبائلی) ایجنسیوں کی بہت زیادہ نگرانی ہوتی تھی۔ جس پر شک ہوتا تھا اسکو پکڑ کر “کاٹ ” میں ڈال دیتے تھے۔ کاٹ ایک لمبی لکڑی ہوتی تھی جس میں سوراخ ہوتے تھے۔ملزم کے پاؤں اس میں ڈال کر اوپر سے دوسری لکڑی ڈال کر پاؤں باندھ لیتے تھے اور اس پر وہ ظلم کیا جاتا تھا جو ہلاکو خان نے بھی کسی کے ساتھ نہیں کیا ہوگا۔ ملاکنڈ کا پولیٹیکل ایجنٹ فرعون سے بھی دو ہاتھ آگے تھا۔لوگ اللہ سے اتنا نہیں ڈرتے تھے جتنا اس سے ڈرتے تھے۔اندھیرا تھا اس لیے ہم پر کسی کو شک نہیں گزرا اور جب ہمارے تانگے والے کو جانے کی اجازت ملی تو ہماری جان میں جان آئی۔ عشا کے وقت بٹ خیلہ پہنچ گئے۔ ہمارا بٹ خیلہ میں کوئی جان پہچان والا نہیں تھا نہ ہی وہاں کوئی سرائے یا ہوٹل تھا۔لیکن پختونوں کے حجرے اور مسجد ہر وقت مہمانوں اور مسافروں کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ ہم کسی کے حجرے نہیں گئے تاکہ کوئی پہچان کر حکومت کو ہمارے متعلق اطلاع نہ دے۔ چنانچہ ہم ایک مسجد میں چلے گئے۔سردی تھی، ہمارے پاس گرم کپڑے نہیں تھے لیکن مسجد گرم تھی، آگ جل رہی تھی۔ایک ہی چادر میں بھی رات خوب گزری۔صبح جلدی اٹھے، چکدرہ میں دریا پر پختہ پل ہے، اسکو پار کرکے پھر پیدل سفر شروع کیا کیونکہ اس وقت ان راستوں پر سواری کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔ رات کو ہم “املوک درہ” پہنچ گئے۔ ایک مسجد میں رات گزاری، فجر کے اذان کے ساتھ املوک درہ سے روانہ ہوئے اور سارا دن چلتے رہے۔دن ڈھلے دریا کے کنارے پہنچ گئے، خوب تھکے ہوئے تھے۔ دریا میں پانی کم مگر ٹھنڈا تھا، جو ہم کسی نہ کسی طرح پار کر گئے۔ خوب سردی لگ رہی تھی اور اوپر سے بھوک لیکن یہاں مخفی صاحب کے رشتہ دار رہتے تھے، انکے گھر پہنچے تو انہوں نے جلدی جلدی آگ جلائی اور کھانا تیار کیا۔ جب جسم گرم ہوئے تو کھانا خوب پیٹ بھر کر کھایا۔مسجد میں سونا زمین پر پڑتا ہے۔آج حجرہ میں چارپائیوں پر گرم بستروں میں گہری نیند سوئے۔ یہ علاقہ “سیند” یعنی دریا کہلاتا ہے کیونکہ بیچ میں دریا بہتا ہے۔ مخفی صاحب کے گاؤں میں آپ پہاڑ کے اوپر بیٹھے ہوں تو نیچے دریا بل کھاتے ہوئے سانپ کی طرح نظر آتا ہے۔ یہ گاوں بہت خوبصورت اور زرخیز ہے۔ دھان کی فصل خوب اگتی ہے، یہاں کے چاول بڑے لذیذ ہوتے ہیں۔ مخفی صاحب کے والد اسی گاؤں میں پیدا ہوئے تھے مگر خود مخفی صاحب چارسدہ میں پیدا ہوئے۔ انکے والد چارسدہ میں بس گئے تھے۔ انکے والد بہت بڑے عالم دین تھے۔ انہوں نے شادی چارسدہ میں ہی کی تھی اور وہیں رہنے لگے تھے۔اس زمانے میں دینی علوم سکھانے کے مدارس نہ تھے۔ جس عالم کی بھی دستار بندی ہوجاتی وہ اپنے یا کسی دوسرے گاؤں کے مسجد میں بیٹھ جاتا اور لوگوں کو فی سبیل اللہ تعلیم دیتا تھا۔ اکثر لوگ پہاڑی علاقوں سے میدانی علاقوں میں تحصیل علم کے لیے آتے تھے۔مخفی صاحب کے والد بھی اسی سلسلے میں آئے تھے اور پھر یہیں چارسدہ میں مقیم ہوگئے تھے۔ بہت بڑے اور روشن خیال عالم تھے۔ اگر روشن خیال نہ ہوتے تو اس زمانے میں انکا بیٹا دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم کیسے حاصل کرتا۔چونکہ میں پیدل چلنے کا عادی نہ تھا اس لیے سخت تھک گیا تھا۔ چند دن میں نے اس گاوں میں آرام کیا۔ مخفی صاحب یہاں سے واپس ہندوستان مولانا عبیداللہ سندھی کو بلانے چلے گئے۔میں اور مخفی صاحب کا ایک چچازاد بھائی جس کا نام اب بھول گیا ہوں، مرکز کے انتخاب کے لیے چل پڑے۔ مخفی صاحب پشاور اور میں “چمر کنڈ” روانہ ہوگئے۔ جب ہم جدا ہوئے تو میں نے مخفی صاحب کی جدائی کو بہت محسوس کیا۔ چمرکنڈ افغانستان کی سرحد پر پہاڑ کی چوٹی پر چھوٹی سی جگہ ہے۔ جب اڈے کے ملا صاحب کو افغانستان میں اثر و رسوخ حاصل ہوا اور انکی بزرگی کا چرچا ہوا تو انہیں امیر عبدالرحمن نے افغانستان بدر کردیا اور وہ چمرکنڈ آگئے تھے۔ اڈے ملا صاحب ایک مرد مجاہد تھے۔ ان کی وجہ سے چمرکنڈ بہت مشہور ہوگیا تھا۔
ہم جب مخفی صاحب کے گاؤں سے چل پڑے تو شام کے وقت “جار” پہنچے۔ جار ایک چھوٹا سا قلعہ بند گاؤں ہے۔جب ہم جار پہنچے تو فصیل کا دروازہ بند تھا۔ آس پاس کوئی دوسرا گاؤں نہ تھا، ہم پریشان ہوگئے کہ اب کیا ہوگا۔ آخر ہم نے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے پوچھا گیا کون ہو؟ ہم نے کہا مہمان ہیں، تھوڑی دیر بعد دروازہ کھولا گیا اور اچھی طرح جانچ پڑتال کے بعد جب اطمینان ہوا کہ ہم خطرناک لوگ نہیں ہیں، ہمیں اندر چھوڑ دیا گیا۔ہم مسجد گئے، وہاں ہم نے کھانا کھایا۔رات ہم نے مسجد میں گزاری اور صبح سویرے وہاں سے چل دیئے۔ رات تک ہم بابڑہ کے ملا صاحب کی جگہ پر پہنچ گئے۔( بابڑہ ایک علاقے کا نام ہے جو افغانستان کے سرحد کے قریب واقع ہے)۔ راستے میں اگر کوئی اس علاقے کا آدمی ہمارے ساتھ ہوتا تو میں اس سے بابڑہ کے ملا صاحب کی بابت پوچھتا کہ کیسا آدمی ہے۔ وہ کہتے بہت بڑا بزرگ ہے۔ میں پوچھتا کیسے؟ جواب دیتے: بھئی جب جاؤگے تو خود دیکھ لوں گے کہ مہمانوں کے ہر گروہ کو کھانا کھلاتے وقت خود ملا صاحب اپنے ہاتھ سے گھی کے کاسے کی کڑاہی پیش کرتے ہیں۔ یعنی بہت زیادہ مہمان نواز اور خدمت کرنے والے ہیں۔ میں نے سوچا اس قوم کا خدا ہی حافظ ہو جن کے لیئے بزرگی کا یہ معیار ہو۔ بابڑے کے ملا صاحب ایک سفید ریش اور اچھے انسان تھے۔انگریز اور قبائلیوں کی لڑائی میں ملا صاحب ہمیشہ قبائلیوں کی طرف سے جہاد میں شامل ہوتے ۔انگریزوں کے سخت مخالف تھے۔غازی انسان تھے، بغیر جان پہچان کے انہوں نے ہماری خوب آؤ بھگت کی۔صبح ناشتے کے وقت چائے کے لئے مجھے اپنے خلوت خانے میں بلایا، اپنی چائے مجھے پیش کی۔ چائے کے بعد ہم ان سے رخصت ہوئے اور چمرکنڈ کی طرف چل پڑے۔ چمرکنڈ یہاں سے قریب تھا، جب ہم دامن کوہ میں پہنچے اور پہاڑ چڑھنے لگے تو اچانک اوپر سے گڈریا لڑکوں نے ہم پر گوبھن سے پتھر برسانے شروع کر دیئے۔ ہمارے اوسان خطا ہوگئے۔ادھر اُدھر دیکھا کہ یہ کون ہم پر سنگ باری کر رہا ہے؟ جب اوپر دیکھا تو پہاڑ کی چوٹی سے کچھ لوگ ہم پر پتھر برسا رہے تھے، ہم نے چیخیں مارنا شروع کر دیئے۔ جب ہماری چیخیں اور اشارے انہوں نے دیکھے تو ہنسنا شروع کردیا۔ ان کے لئے یہ ایک کھیل تھا لیکن اگر اس میں کوئی پتھر ہمیں لگ جاتا تو ہمارا کام ہوچکا ہوتا۔ ہم ایک پگڈنڈی کے ذریعے پہاڑ کی چوٹی پر جارہے تھے۔ میں پہاڑی علاقے میں سفر کرتے کا عادی نہیں۔ جلدی تھک جاتا اور رک کر تھوڑا سانس لیتا تھا۔ چنانچہ اس طرح رک رک کر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ میں نے سنا ہے کہ جسطرح میدانی علاقے کے لوگ پہاڑی علاقوں میں نہیں چل سکتے تھے، اس طرح پہاڑی علاقے کے لوگ میدانی علاقوں میں سفر نہیں کرسکتے”۔
باچا خان کی خود نوشت سوانح عمری “میری زندگی اور جدوجہد” سے مندرجہ بالا روداد چند دلچسپ حقائق کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ بندوق کے ذریعے برصغیر کی آزادی باچا خان کے ذاتی اور سیاسی ایمان کا جزو تھا جس پر انہوں نے مسلسل سوچا تھا اور اس حوالے سے ایک واضح لائحہ عمل انکے زہن میں موجود تھا۔ باچا خان انتہائی سیدھے، سچے، صاف گو اور بےباک شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے نہ صرف عصری سیاست میں بلکہ زمانہ حال کے حوالے سے بھی سیاست کے انتہائی اعلی معیار مقرر کیئے تھے جس میں بغیر لگی لپٹی کے اپنا مافی الضمیر بیان کرنا شامل تھا۔ سال 1914 کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو سیاسی سرگرمیوں سے زیادہ ان کی جہادی سرگرمیاں کھل کر سامنے آتی ہیں جو انکے اس وقت کے ترجیحات کا واضح ثبوت ہے۔ دیوبند کے بلند قامت اکابرین اور ہندوستان کے جید علما سے پہلے باچا خان برصغیر کی آزادی کے لیئے اسلامی حریت کے جذبہ جہاد پر مکمل ایمان کے ساتھ اس کے لیئے کوشاں تھے۔ دیوبند کے علماء کے مقابلے میں انکا جذبہ زیادہ شدید اس لیئے بھی تھا کہ اسلام کی طاقت کے ساتھ ساتھ باچا خان پشتونولی کی قوت سے بھی مزین اور سرشار تھے۔ دیوبند کے اکابرین کی آمادگی ان کے لیئے ایک غیبی طاقت تھی۔ دوسری طرف دیوبند کے علماء بھی بہت اچھی طرح اس حقیقت سے اشنا تھے کہ جہادی تربیتی مرکز کا قیام آزاد پشتون قبائلی علاقے اور افغانستان کے بغیر ہندوستان میں کہیں بھی ممکن نہیں ہے۔ ہندوستان میں وہ سیاسی مرکز جبکہ آزاد پشتون قبائلی علاقوں اور افغانستان میں وہ عسکری مرکز قائم کرنا اور چلانا چاہتے تھے۔ عسکری مرکز میں تربیت پانے والے زیادہ تر مجاہدین کا تعلق بھی پشتون کے مختلف قبائل سے ہوتا اور یوں جنگ آزادی کا سیاسی محاذ ہندوستان سنبھالتی جبکہ گوریلا جنگ پشتون علاقے سے لڑی جاتی تھی جسکی سربراہی کے لیے باچا خان سے زیادہ موزون کوئی دوسرا راہنما تھا ہی نہیں۔ باچا خان چونکہ ذاتی طور پر خود بھی اس سوچ کے حامی تھے اس لئے مرکز کے لئے جگہ کے انتخاب کے لیے جب انہیں ذمہ داری سونپی گئی تو انہوں نے بہ خوشی اس ذمہ داری کو نہ صرف یہ کہ قبول کیا بلکہ اسکے لئے عملی اقدامات بھی اٹھائے ۔
جہاد کے حوالے سے باچا خان کی سربراہی تسلیم کرنا اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ جب جنوری 1914 میں دیوبند میں پہلا رسمی جہادی اجلاس منعقد ہوا تو دیوبند کے اکابرین کی جانب سے بونیر کو بطور مرکز قبول کرنے اور بریلوی کے شہداء کے باقی ماندہ بچے ہوئے مجاہدین کے ساتھ جو بونیر میں مقیم تھے باچا خان نے کام کرنے سے انکار کیا۔ باچا خان کا انکار انائیت کے باعث نہیں تھا بلکہ مخفی صاحب کے ذریعے ان کو جہاد میں شامل کرنے میں ناکامی کے بعد باچا خان بریلوی شہداء کے بونیری مجاہدین کا باب بند کر چکا تھا۔ مرکز کے لئے جگہ تلاش کرنے کی خاطر جتنی مسافت باچا خان نے طے کی تھی، جتنی تکالیف انہوں نے اٹھائی تھیں اور جن جن راستوں پر سفر کیا تھا آج اس جدید دور اور سہولتوں کی دستیابی کے باوجود بھی شائد کوئی تمثیلی طور پر دہرانے کی ہمت نہ کرسکے۔ پرتشدد کاروائیوں کے لیے باچا خان کے اس فیصلے پر بھی غور کیا جائے کہ انہوں نے افغانستان کے سرحد سے قریب ترین جگہ “چمر کنڈ” کا انتخاب پہلے مرحلے میں کیوں کیا تھا اور اس جگہ کی عسکری اور جہادی تاریخ کیا تھی؟
باچا خان کی اس اعلیٰ جنگی فکر پر اگلے قسط میں تفصیل کے ساتھ بات کی جائی گی۔ باچا خان کی اسلامی شعور، کامل ایمان اور پختہ سوچ کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ جب علاقے کے عام لوگوں سے بابڑہ کے ملا صاحب کے بارے میں پوچھتا ہے تو ہر کوئی انکی بزرگی کی تصدیق کرتا ہے اور ان کی عظمت کو انکے مہمان نوازی سے جوڑتا ہے جو باچا خان کو بڑا مضحکہ خیز لگتا ہے۔ مگر جب باچا خان بابڑے کے ملا صاحب سے ملتے ہیں تو ان سے انتہائی متاثر ہو کر رخصت ہوتے ہیں۔ جہاں انہوں نے بھی ملا صاحب کی مہمان نوازی کی تعریف کی ہے وہاں خصوصی طور پر وہ انکے انگریز کے خلاف جہاد میں حصہ لینے سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور انہیں ایک سچا غازی قرار دیا ہے اور متاثر کیوں نہ ہوتے کہ وہ خود بھی آزادی کے لیئے جہاد پر یقین رکھتے تھے۔
( جاری ہے )