شمس مومند
8 فروری 2024 کے انتخابات سے ایک ہفتہ قبل باجوڑ سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 8 اور صوبائی اسمبلی پی کے 22 سے بیک وقت آزاد امیدوار ریحان زیب کو نامعلوم افراد نے گولی مارکر قتل کردیا۔ جسکی وجہ سے الیکشن رولز کے مطابق باجوڑ کے ان دونوں حلقوں پر انتخابات کو ملتوی کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ ریحان زیب کیساتھ ان کے تین ساتھی بھی شدید زخمی ہوئے تھے۔ ریحان زیب پاکستان تحریک انصاف کے سرگرم کارکن تھے مگر ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے ناراض ہوکر آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔ دونوں حلقوں پر انتخابات کے التوا سے درجنوں امیدوار کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود انتظار کی سولی پر لٹک گئے۔
ان حلقوں پر 21 اپریل کو ضمنی انتخابات ہوئے۔ انہی انتخابات کے لئے انتخابی مہم کے دوران پیپلز پارٹی کے صوبائی رہنما اور سابق ممبر قومی اسمبلی و حالیہ امیدوار اخونزادہ چٹان کی گاڑی پر بم حملہ کیا گیا۔ گاڑی بم پروف ہونے کی وجہ سے اخونزادہ چٹان محفوظ رہے مگر انکی بم پروف گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔ان انتخابات میں شہید ریحان زیب کے چھوٹے بھائی مبارک زیب اسی طرح آزاد حیثیت سے دونوں حلقوں سے امیدوار بنے اور بھاری اکثریت سے دونوں سیٹیں جیت گئے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ دونوں میں سے کسی ایک سیٹ کو اپنے ساتھ رکھنے کے مجاز تھے سو انھوں نے قومی اسمبلی کا انتخاب کیا اور صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی کے 22 پھر خالی رہ گیا جوچھ مہینے میں تیسری مرتبہ انتخابی نہیں بلکہ خونی میدان جنگ بن گیا۔
اس مرتبہ 11 جولائی کو ہونے والے انتخابات سے ایک ہفتہ قبل انتخابی مہم کے دوران ایک اور سیاسی شخصیت اور خانوادہ سابق سینیٹر ہدایت اللہ خان کی گاڑی کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ جس میں وہ اپنے چار ساتھیوں سمیت موقع پر ہی جام شہادت نوش کرگئے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہدایت اللہ خان سابق گورنر انجینئر شوکت اللہ کے بھائی جبکہ سابقہ ایم این اے بسم اللہ خان کے برخوردار تھے۔ مگر یہ سب لوگ آزاد حیثیت سے سیاست کرتے ہیں ان سب کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ مرحوم کو اپنی وفات سے پہلے تقریبا 100 مرتبہ دھمکیاں دی گئی تھی اور انھوں نے ہر دھمکی پر باقاعدہ ایف آئی آر درج کی ہے مگر ان سب کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
ٹھیک 11 مہینے پہلے جولائی 2023 میں بھی باجوڑ میں جمیعت علمائے اسلام کے ورکرز کنونشن کو خود کش حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا جس میں 44 افراد شہید اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
ان تمام تفصیلات اور یاد دہانی کے دو مقاصد ہیں ایک یہ کہ باجوڑ میں صورتحال گزشتہ ایک سال سے مسلسل خراب ہورہی ہے اور یہاں کوئی خاص فرد یا پارٹی نشانہ نہیں بلکہ ہر وہ شخص نشانہ ہے جس کی شہادت زیادہ دہشت پھیلا سکے۔
دوسری بات یہ کہ ہم اپنے کالموں اور پراگراموں کے ذریعے مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ سیاستدانوں اور حکمرانوں نے اپنی مفادات کے لئے اقتدار تک پہنچنے کے جو چور دروازے چھوڑے ہیں انکو بند ہونا چاہیے مگر ابھی تک حکمران ہماری آواز کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ کسی بھی سیاسی رہنما کو بیک وقت ایک سے زیادہ حلقوں سے انتخابات لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اگرسیاستدان اپنے لئے ہر قیمت پر اسمبلی میں پہنچنے کا دروازہ کھلا رکھتے ہیں تو پھر اسکی قیمت الیکشن کمیشن قومی خزانے اور عوام کے ٹیکس کی بجائے خود ادا کرے۔ یعنی ایک سے زیادہ حلقوں سے منتخب شخص جو بھی سیٹ خالی کرے گا اس پر دوبارہ انتخابات کا تمام خرچہ سیٹ خالی کرنے والے فرد سے وصول کیا جائے۔ تاکہ چھ مہینے کے دوران ایک ہی حلقے میں تین تین مرتبہ خونی انتخابات کا کھیل بند کیا جاسکے۔ دوسری بات یہ کہ باجوڑ انتظامیہ اور پولیس حکام جواب دے کہ سینیٹر ہدایت اللہ کی جانب سے 100 ایف آئی آر کے اندراج کے باوجود وہ اسکی حفاظت کو یقینی کیوں نہ بناسکے۔
اللہ تعالی اس خطے کو مزید تباہی اور خونی سرگرمیوں سے بچائے۔ آمین
خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے حملوں میں تیزی
گزشتہ 24 گھنٹوں میں صوبے کے مختلف اضلاع میں 9