GHAG

خیبرپختونخوا کو بیڈ گورننس کا سامنا

جید علماء نے اپنے مختلف رسمی بیانات میں مدین سوات میں ایک پرتشدد ہجوم کی جانب سے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک سیاح کو قتل کرنے کے اقدام کو خلاف اسلام اور خلاف قانون قرار دے دیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ اگر مقتول توہین کا مرتکب ہوا بھی تھا تو سزا کاتعین حکومت کے پاس تھا اور انفرادی طور پر کسی کو اس کو اس طرح قتل کرنے کا اختیار حاصل نہیں تھا۔  دوسری جانب جے آئی ٹی نے اپنی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اور ابتدائی رپورٹ میں واقعے کی ذمے داری پولیس کی غلط حکمتِ عملی پر ڈالی گئی ہے جبکہ پولیس نے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے تقریبا ً50 افراد کو گرفتار کرلیا ہے ۔ اس میں دو آراء ہیں ہی نہیں کہ اس واقعے نے نہ صرف سوات اور خیبرپختونخوا کی شہرت اور ساکھ کو بری طرح متاثر کردیا ہے بلکہ عالمی میڈیا نے پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے اور پاکستان کی حکومت ، معاشرت اور پورے سماجی ڈھانچے کو متعدد سوالات سے دوچار کردیا ہے تاہم حیرت اس بات کی ہے کہ صوبائی حکومت یا پولیس ڈیپارٹمنٹ نے ابھی تک متعلقہ پولیس حکام کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی نہیں کی ہے۔ کم از کم ڈی پی او کے خلاف کارروائی تو کی جانی چاہیے کیونکہ موصوف کی لاتعلقی اور ایک بیان میں اس سنگین واقعے کو روٹین کا حادثہ قرار دینے کے رویے نے موصوف اور ان کی پوری ڈیپارٹمنٹ کو بے توقیر اور بے نقاب کردیا ہے ۔ دوسری جانب اس قسم کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں کہ اسسٹنٹ کمشنر بحرین سمیت متعدد دیگر سرکاری حکام نے اس واقعے میں مقتول کو سزاوار قرار دینے کی باقاعدہ مہم چلائی ہے جو کہ سروس رولز کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے ۔ حکومت کو ایسے سرکاری اہلکاروں کے خلاف بھی سخت ایکشن لینا چاہیے کیونکہ اس رویے نے پورے نظام پر سوالیہ نشان لگادئیے ہیں ۔  دوسری جانب صوبے میں آپریشن عزم استحکام پر سیاسی اور عوامی حلقوں کی جانب سے بحث جاری ہے اور اس ضمن میں سوات سمیت پورے ملاکنڈ ڈویژن میں مختلف نوعیت کے سیاسی ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے ۔ دیر میں منعقد ہونے والے ایک عوامی جرگے میں سیاسی ، عوامی مشران نے مجوزہ آپریشن پر تحفظات کا اظہار کرلیا ہے تاہم تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی اس تمام منظر نامے سے بلکل غائب اور لاتعلق ہیں جو کہ حیرت کی بات ہے ۔ مدین واقعے پر بھی ان نمائندوں کی لاتعلقی نے ایک عجیب قسم کی صورتحال پیدا کردی ہے حالانکہ جس پولیس اسٹیشن میں یہ افسوسناک واقعہ ہوا ہے اس کے بالکل سامنے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایک ایم پی اے کا گھر واقع ہے ۔ اس تمام تر منظر نامے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست کے دیگر ادارے اپنا کردار ادا کریں اور ان معاملات کو محض صوبائی یا ضلعی انتظامیہ پر نہ چھوڑا جائے ورنہ پرتشدد واقعات کی ایک لہر چل پڑے گی اور معاشرے کا مستقبل خطرے سے دوچار ہوجائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts