GHAG

پی ٹی آئی پر پابندی، چند سوالات؟

شمس مومند

سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے متنازع فیصلے کے بعد جلد بازی میں حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی کا اعلان کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی سیاسی جماعت پرپابندی لگانا حکومت کے لئے اتنا آسان ہے؟ کیا اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر اتنے بڑے فیصلے کو پارلیمنٹ سے منظور کرنا ممکن ہے؟ اگرکابینہ کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن اس فیصلے کی توثیق بھی کردے تو کیا موجودہ عدلیہ الیکشن کمیشن کے پہلے فیصلوں کی طرح اس کو ردی کی ٹوکری میں نہیں ڈالے گا؟ اگر بانی پی ٹی آئی اور اسکے باقی دوستوں کے خلاف باقی تمام کیسز کی طرح حکومت کا یہ آخری حربہ بھی عدلیہ کی بدولت ناکام ہوگیا تو حکومت کے پاس اقتدار میں رہنے کا کیا جواز باقی رہے گا؟ اور کیا اسکے بعد بھی وہ بانی پی ٹی آئی کو جیل میں اور خود کو اقتدار میں رکھنے میں کامیاب ہوسکیں گی؟
اصل بات یہ ہے کہ حکومت کرنا بہترین منیجر کا نہیں بہترین لیڈر کاکام ہوتا ہے جوبروقت جرات مندانہ اور ٹھوس فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جن لوگوں نے نواز شریف کی بجائے شہباز شریف کو آگے لانے اور ایک بہترین منتظم کے ذریعے بد ترین حالات کو سھنبالنے کا منصوبہ بنایا اور سپورٹ کیا۔ انہیں اب احساس ہوچکا ہوگا کہ ملک چلانے کے لئے 18 گھنٹے کی محنت نہیں وژنری لیڈر اور بروقت فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرہر کام مصالحت سے ممکن ہوتی تو تاریخ میں درجنوں بادشاہ اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو قتل نہ کرتے۔ اقتدار میں رہنے اور قوانین کو لاگو کرنے کے لئے کھبی کھبی قانون کا بے رحم ڈنڈا بھی استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شہباز حکومت کی ساری توجہ معاشی استحکام اور بیرونی سرمایہ کاری لانے پر مرکوز رہی۔مگر انھوں نے ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام تباہ کرنے والوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ حالانکہ انہیں یہ احساس ہوجا نا چاہیے تھا کہ جس گھر میں روزانہ لڑائی جھگڑا ہوتا ہے وہاں مہمان اور برکتیں نہیں آتی جس بالٹی میں سوراخ ہوتے ہیں اس میں پانی کو جمع نہیں کیا جاسکتا۔ آئی ایم ایف بجٹ، عدالتی فیصلوں اور مہنگائی کے بعد شہباز حکومت تحریک انصاف پر پابندی جیسے بڑے فیصلوں کا جواز کھو چکی ہے۔ سوائے ایک شرط کے کہ اگر حکومت کے پاس پی ٹی آئی کے دہشت گردوں سے روابط اور فنڈنگ یا پھر امریکی ایوان کی پاکستان مخالف قرارداد کے پیچھے پی ٹی آئی کی لابنگ ثابت کرنے کا مناسب مواد موجود ہو اور وہ اس کے ذریعے عدالت کو مطمئن کر سکے۔ دوسری بات یہ کہ اتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لینا ناگزیر ہے۔ تاکہ یہ فیصلہ صرف مسلم لیگ ن کا نہیں بلکہ اتحادی حکومت کا فیصلہ ثابت ہو۔ جبکہ عدلیہ سمیت ریاستی اداروں کے اندر پی ٹی آئی کے حامی افراد کی موجودگی اور تعاون کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ بصورت دیگر سیاسی اور معاشی استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp