تحریر: اے وسیم خٹک
خیبر پختونخوا میں محکمہ اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے جاری تنازع نے اہم شکل اختیار کر لی ہے۔ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے درمیان اختلافات کا اثر محکمہ اعلیٰ تعلیم پر واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔گزشتہ روز گورنر خیبرپختونخوا نے لکی مروت یونیورسٹی میں سینیٹ کے اجلاس میں بحیثیت یونیورسٹی چانسلر شرکت کی جبکہ 2024کے ایکٹ میں ترامیم ہونے کے بعد تمام یونیورسٹیوں کے چانسلر وزیراعلی ہوگئے ہیں۔گورنر کی بحیثیت چانسلر شرکت نے معاملے کو پیچیدہ بنادیا ہے۔ دوسری جانب بہت سی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو محکمہ اعلیٰ تعلیم نے اجازت دے دہی ہے کہ وہ جو بھی سیلیکشن بورڈ کرنا چاہیں، کرسکتے ہیں جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ فل ٹائم وائس چانسلر ہی سیلیکشن بورڈ کرسکتا ہے، باقی وائس چانسلر کے پاس اختیارات اتنے زیادہ نہیں ہوتے۔ موجودہ صورتحال بہت گھمبیر ہوگئی ہے کیونکہ دوسالوں سے زیادہ تر یونیورسٹیاں بغیر وائس چانسلر کے کام کر رہی ہیں۔
صوبائی حکومت نے نگران حکومت کےدور میں ہونے والے پراسس کو روک دیا اور نئے سرے سے منصوبہ بندی شروع کردی، نئی سرچ کمیٹی بنائی گئی مگر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوپائی۔ اس کے ساتھ ہی ایکٹ میں ترمیم گئی جس میں وائس چانسلر کی مدت ملازمت تین سے چار سال کردی گئی اور اس کے ساتھ گورنر سے سب اختیارات لے کر وزیراعلی کو منتقل کر دیئے گئے۔ اس پراسس کو سندھ میں پیپلزپارٹی نے بھی کیا اب وہاں بھی گورنر بے اختیار ہوگیا ہے اور سب طاقت وزیرا علی کے ہاتھ میں ہے۔گورنر خود پیپلز پارٹی کا ہے اور اپنی حکومت کے فیصلے پر سر تسلیم خم کیا ہوا ہے مگر خیبرپختونخوا میں تنازعے کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ تمام یونیورسٹیوں کے آفیشل ویب سائٹس پر ابھی بھی گورنر کی تصویر اور پیغام موجود ہے جو کہ اب وزیراعلی کا ہونا چاہیئے۔
گورنر اور وزیراعلی کے درمیان تنازع کی ابتدا اس وقت ہوئی جب صوبائی حکومت نے خیبر پختونخوا اسمبلی سے یونیورسٹی ایکٹ ترمیمی بل منظور کروایا۔ اس بل میں اہم تبدیلی یہ تھی کہ جامعات کے وائس چانسلرز کی تقرری کے اختیارات گورنر سے لے کر وزیراعلیٰ کو دے دیے گئے۔ اس کے تحت گورنر اب جامعات کے چانسلر نہیں رہے۔ تاہم گورنر نے اس بل کو منظور کرنے سے انکار کر دیا اور اسے اعتراضات کے ساتھ واپس کر دیا۔ گورنر کا موقف ہے کہ یہ بل مالی نوعیت کا نہیں ہے اور اس کے لیے ان کا دستخط ضروری نہیں۔
دوسری جانب محکمہ اعلیٰ تعلیم کا دعویٰ ہے کہ اس بل میں پروفیسرز کی تنخواہوں اور مالی امور سے متعلق معاملات شامل ہیں، جس کی وجہ سے یہ منی بل کے زمرے میں آتا ہے اور گورنر کے پاس اسے روکنے کا اختیار نہیں۔ اس تنازع کی وجہ سے نہ صرف جامعات میں اصلاحات کا عمل رک گیا ہے بلکہ اہم عہدوں پر تقرریاں اور ترامیم بھی تعطل کا شکار ہیں۔
موجودہ صورتحال میں مختلف جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرریاں زیر التوا ہیں، جبکہ گورنر نے نہ ان کی منظوری دی ہے اور نہ ہی انہیں واپس بھیجا ہے۔ اس کے علاوہ ہزارہ اور صوابی کی جامعات میں سینڈیکیٹ کے ممبران کی تقرری پر بھی محکمہ اعلیٰ تعلیم نے اعتراضات اٹھائے ہیں۔
ماہرین ہائر ایجوکیشن کے مطابق اس تنازع کی وجہ سے صوبے کی جامعات انتظامی بحران کا شکار ہو گئی ہیں اور اصلاحات کا عمل شدید متاثر ہوا ہے۔ اگر یہ تنازع جلد حل نہ ہوا تو اس کے منفی اثرات طویل عرصے تک برقرار رہ سکتے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق، صوبائی حکومت اس مسئلے کو آئینی اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن گورنر اور حکومت کے درمیان جاری اختلافات کے باعث معاملات مزید الجھتے جارہے ہیں۔
(15 جنوری 2025)