رولز آف بزنس کی خلاف روزی کی بدترین مثال قائم
بشریٰ بی بی نہ تو سرکاری عہدیدار ہیں نا پارٹی میں عہدہ رکھتی ہیں تو کس حیثیت سے چیک دی؟ عوامی حلقے
ریاست مخالف سرگرمی میں حصہ لینے والے کے نام پر سکول کے قیام کا اعلان کس حیثیت سے کی گئی؟
میں بھاگنے والوں میں سے نہیں، مجھے اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا، بشریٰ کی عجیب منطق
پشاور ( غگ رپورٹ ) پاکستان تحریک انصاف کی نئی “غیر اعلانیہ” سربراہ اور بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی المعروف پنکی پیرنی 26 نومبر کی فائنل کال کے ایونٹ سے پراسرار طریقے سے فرار ہونے کے بعد گزشتہ روز پہلی بار ایک غیر قانونی کام اور تضاد بیانی سے بھرپور بیان کے ساتھ چارسدہ میں منظر عام پر آئی جہاں انہوں نے مبینہ طور پر پارٹی کے ایک جاں بحق ہونے والے ایک کارکن کے لواحقین کو ایک کروڑ روپے کا سرکاری چیک “عنایت” کرتے ہوئے مرحوم کے نام پر ایک سرکاری سکول قائم کرنے کا اعلان بھی کردیا۔
بشریٰ بی بی اسلام آباد کی فائنل کال کے دوران وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے بقول ان کی گاڑی میں مانسہرہ فرار ہوگئی تھی جہاں دونوں نے دو دنوں تک قیام کیا اور اگلے روز سرکاری ہیلی کاپٹر میں پشاور پہنچ گئے تاہم بشریٰ بی بی اس واقعے کے بعد پہلی مرتبہ گزشتہ روز خیبرپختونخوا کے علاقے چارسدہ میں “منظر عام” پر آئی۔ انہوں نے نہ صرف رولز آف بزنس اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرکاری خزانے سے پارٹی کے ایک جاں بحق ہونے والے کارکن کے لواحقین کو امدادی چیک دی بلکہ ان کے نام پر سکول قائم کرنے کا یہ پرواہ کئے بغیر اعلان کیا کہ نہ تو موصوفہ کسی سرکاری عہدے پر فائز ہیں اور نا ہی وہ پارٹی کی کوئی عہدیدار ہیں۔ یوں انہوں نے ایک نئی مثال قائم کرتے ہوئے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف یہ کہ پارٹی کو لیڈ کرنے لگی ہیں بلکہ وہ کھلے عام خیبرپختونخوا حکومت کے وسائل کو اس انداز میں استعمال بھی کرسکتی ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ جس روز وہ سرکاری پروٹوکول کے ساتھ یہ سرگرمی کرتی دکھائی دی اس دن ایک اہم عدالت میں توشہ خانہ 2 کیس میں ان کی پیشی تھی مگر وہ تیسری بار بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئی جس کو تجزیہ کاروں نے قانون اور عدلیہ کا کھلے عام مذاق اڑانے کا رویہ قرار دیا۔
اس “شاندار انٹری” کے موقع پر موصوفہ نے کہا کہ وہ بھاگنے والوں میں سے نہیں ہیں اور اپنے شوہر کے حکم کے مطابق ڈٹے رہنے کے لئے اسلام آباد گئی تھی مگر ان کو وہاں اکیلا چھوڑ دیا گیا اور جب انہوں نے کریک ڈاؤن کے دوران پیچھے دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔ حسب معمول انہوں نے ایک بار پھر پشتونوں کو “غیرت مند” قرار دینے کا اپنا بیان دہرایا جس پر سخت تنقید کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر اس عمل کو لسانی کارڈ استعمال کرنے کا حربہ قرار دیا گیا۔
بشریٰ بی بی نے اپنے اس عجیب وغریب بیانیہ کے ذریعے اپنی مرکزی قیادت اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ان تمام بیانات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ان کو “جھوٹا” ثابت کیا جو کہ یہ کہتے آرہے ہیں کہ عمران خان کی اہلیہ کو باعزت طریقے سے وہاں سے نکالا گیا تھا کہ ان کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ بشریٰ بی بی کی “فرار” کی پوری کہانی کی باقاعدہ ویڈیو کلپس موجود ہیں مگر انہوں نے اس صورتحال کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ اصل حقائق اور واقعات سے بلکل الگ ہے اس لیے سیاسی ، صحافتی اور عوامی حلقوں نے جہاں چیک دینے اور سکول کے قیام کے اعلان کو غیر قانونی حرکت قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا وہاں فرار کی ان کی کہانی پر بھی متعدد سوالات کھڑے کردیے گئے۔
دوسری جانب اس قسم کی اطلاعات ایک بار پھر سامنے آئی ہیں کہ پارٹی کے متعدد اہم مرکزی اور صوبائی قائدین نے پارٹی اور صوبائی حکومت کے معاملات میں بشریٰ بی بی کی جانب سے اس طرح کھلے عام مداخلت پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس پریکٹس کو پارٹی اور صوبائی حکومت دونوں کے لیے سخت نقصان دہ قرار دیا ہے اور بعض نے باقاعدہ طور پر اپنے عہدوں سے استعفے دینے کی دھمکیاں بھی دی ہیں۔