GHAG

بے سمت کاروان ، ناتجربہ کاری یا کچھ اور؟

تحریر : بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
ممتاز صحافی اور مصنف شمس مومند نے اپنے ایک وی لاگ میں پشاور، خیبرپختونخوا میں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے زیر اہتمام منعقدہ جرگے یا اجتماع کے بارے میں اور پی ٹی ایم کے کردار پر اہم اور مستند سوالات اٹھائے ہیں جو یقینی طور پر جواب طلب ہیں۔ آغاز میں انہوں نے نشاندہی کی کہ اگر وہ اس قسم کے سوالات جرگے کے موقع پر کرتے تو انہیں گل خان، لفافہ صحافی، یا فوج کا ایجنٹ قرار دیا جاتا۔ انہوں نے بالکل صحیح کہا ہے اور میں ذاتی تجربے کی بنیاد پر ان سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ پی ٹی ایم کے کارکنان، بلکہ وہ افراد جو خود کو رہنما کہتے ہیں، باقی سیاسی جماعتوں کے بے سمت اور جذباتی کارکنوں کی طرح ہی ہیں۔ نہ ان کی کوئی نظریاتی تربیت ہے اور نہ ہی ان میں کوئی تنظیمی ضبط و ربط ہے۔ کوئی اگر ان کی مرضی کے مطابق بات کرے تو واہ واہ ہوتی ہے، لیکن اگر کوئی اصلاح کے لیے پی ٹی ایم پر تنقید کرے تو گالم گلوچ، بدتمیزی اور بدتہذیبی پر اتر آتے ہیں اور سیدھا سیدھا آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔
لیکن ایسے لوگوں کی کیا پرواہ کرنی۔ جو لوگ بغیر سوچے سمجھے ہوا کے رخ کے ساتھ بھاگتے ہیں، وہ اکثر نقصان اٹھاتے ہیں کیونکہ وہ اپنی سمت کا تعین نہیں کر پاتے۔ بے شک ہوا کے مخالف چلنا مشکل ہوتا ہے اور چپو سخت چلانا پڑتا ہے، لیکن انسان کو اپنی زندگی کے فیصلے سوچ سمجھ کر کرنے چاہییں۔ اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرنا چاہیے ۔ کیونکہ آخر کار اپنے قدموں کی رہنمائی کا اختیار انسان کے پاس ہے۔ بے مقصد بھاگنا یا دوسروں کی اندھی تقلید کرنا آپ کو منزل تک نہیں پہنچا سکتا۔ اپنی سوچ اور شعور سے کام لینا ہی حقیقی کامیابی کی کنجی ہے۔
شمس مومند نے اس اجتماع کو غیر منظم اور بے سمت قرار دیا، جس سے یقینی طور پر بہت سارے آزاد مبصرین متفق ہوں گے، میری بھی یہی رائے ہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بڑی تعداد میں لوگوں کو تو جمع کر لیا گیا لیکن اختتام اور خصوصاً اعلامیے سے ظاہر ہوا کہ کیا کہنا اور کیا کرنا ہے، اس کے لیے کوئی باقاعدہ تیاری نہیں تھی۔ انہوں نے صحیح نشاندہی کی کہ اختتام پر تمام نمائندوں کے دستخط شدہ کوئی جامع مشترکہ اعلامیہ پیش کرنے کے بجائے منظور پشتین نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ادھر ادھر کے کاغذات سے اعلامیے کے 22 نکات پڑھے۔ انہوں نے اپنی معلومات کی بنیاد پر بتایا کہ ان میں سے کچھ نکات پر نمائندوں کا اختلاف بھی تھا، لیکن پھر بھی وہ اجتماع میں پڑھے گئے۔ اس اعلامیے کو انہوں نے پی ٹی ایم کا یکطرفہ اعلامیہ قرار دیا۔
ایک اہم سوال جو انہوں نے اٹھایا اور جو سب کے ذہن میں ہے وہ یہ کہ اگر پشتون شورش زدہ علاقوں سے فوج چلی گئی تو امن و امان کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟ اس پر میری رائے یہ ہے کہ یہ کوئی پرانی بات نہیں کہ یہی علاقے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں تھیں اور بیشتر مقامی لوگ ان کی سہولت کاری کرتے تھے۔ جتنے بڑے بڑے دہشت گرد مارے گئے، وہ انہی علاقوں میں مقیم تھے بلکہ آج بھی یہ علاقے پوری طرح خالی نہیں ہوئے۔ جب بھی انہیں موقع ملتا ہے وہ دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اجمل خان مرحوم کو دہشت گردوں نے چار سال اسی علاقے میں قید کیے رکھا اور اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں۔
جرگے کے اگلے دن بنوں پولیس لائن پر ان کا حملہ بھی اس کا بڑا ثبوت ہے۔ لوگوں کے جذبات بھڑکانے اور تالیاں بجوانے کے لیے تو ایسے مطالبات کیے جا سکتے ہیں، لیکن حقیقت میں اس سے ان علاقوں کو دوبارہ آگ میں دھکیلنا ہوگا۔ ہاں، مقامی لوگوں کی فوج سے جو شکایات ہیں، انہیں بیٹھ کر حل کیا جانا چاہیے۔
شمس مومند نے پاک افغان بارڈر کو آزادانہ آمد و رفت کے لیے کھولنے پر بھی سوال اٹھایا اور پانچ روپے فی یونٹ بجلی کے مسئلے پر بھی، اور وہ بالکل درست کہہ رہے ہیں کہ یہ ناممکنات میں سے ہے۔ خاص طور پر آج کے حالات میں بارڈر کھولنا دہشت گردوں، منشیات فروشوں اور دیگر سمگلروں کو مواقع فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
ایک اور نہایت اہم سوال جو انہوں نے اٹھایا ہے اور جو ہمیشہ میرا بھی سوال رہا ہے وہ یہ ہے کہ پی ٹی ایم اصل میں کس کے لیے اور کن کے لیے تنظیم ہے؟ اگر یہ پاکستان میں رہنے والے پشتونوں کے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے اور ان کے حقوق کی جدوجہد کے لیے ہے، تو بیرون ممالک میں اس کے تمام تنظیمی عہدیدار افغانی کیوں ہیں؟ اور یہاں تک کہ پاکستان میں ان کے اجتماعوں میں پاکستان کے بجائے افغانستان کے جھنڈے کیوں لہرائے جاتے ہیں اور پاک فوج کے خلاف نعرے لگائے جاتے ہیں؟ ریکارڈ پر ہے کہ بیرون ممالک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس کا واحد ایجنڈا پاکستان اور اس کی فوج کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کر کے اسے بدنام کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک مقیم وہ پاکستانی جو اس کی حمایت کرتے تھے، اب زیادہ تر کنارہ کش ہو چکے ہیں۔
شمس مومند نے چند ثبوتوں کی بنیاد پر بات کی ہے کہ کچھ بیرونی عناصر اور قوتیں ان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے فنڈنگ کرتی ہیں۔ انہوں نے جرمنی میں پاکستانی سفارتخانے پر حملے، پاکستان کا جھنڈا اتار کر اسے جلانے کی مثال دی ہے، جس کا ذکر اسی انداز میں کئی اور لوگ بھی کرتے رہے ہیں۔ شمس مومند نے ایک بڑا سوال اٹھایا ہے کہ اگر پی ٹی ایم لر او بر دونوں کی تنظیم ہے تو کیا کبھی اس نے افغانستان میں بزور بندوق قابض حکومت کے خلاف کوئی آواز اٹھائی ہے؟ افغانستان میں جس طرح لوگوں کے بنیادی حقوق غضب کیے گئے ہیں، وہاں جس طرح آوازوں کو دبایا گیا ہے، خواتین کے ساتھ جو ناروا سلوک ہو رہا ہے، اور لڑکیوں پر جس طرح تعلیم کے دروازے بند کیے گئے ہیں، کیا اس کے خلاف کبھی کچھ کہا گیا ہے؟
پی ٹی ایم کے حامی افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو گالیاں دیتے رہتے ہیں، کیا ان میں اتنی جرات ہے کہ وہاں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں اور اپنا وہ جھنڈا لہرائیں جو وہ پاکستان سمیت ہر جگہ اٹھائے پھرتے ہیں، لیکن اپنے ملک میں اس پر پابندی ہے؟ منظور پشتین نے جس معذرت خواہانہ ، جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں، کے انداز میں افغان حکومت سے لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت دینے کی درخواست کی، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا ایجنڈا ‘لر او بر’ کے لوگوں کے حقوق نہیں، بلکہ کچھ اور ہے۔جو سوالات شمس مومند نے اٹھائے ہیں، منظور پشتین کو ان کے جوابات دینے چاہیے۔
پاکستان کے پشتونوں کو اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی شعور نہ آیا، اور اگر اب بھی وہ ہمیشہ کی طرح جذباتی نعروں کے پیچھے بھاگتے رہے، تو کہانی وہی ہوگی “چه دا چا، دا پخپله” اپنے ساتھ جب سب کچھ خود کرتے ہیں تو پھر اوروں سے شکایتیں کیسے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts