GHAG

اس گھر کو آگ لگ گئی

تحریر: روخان یوسف زئی

یہ تو ایک آزمایا ہوا کامیاب نسخہ ہے کہ اگر آپ کسی کے گھر،خاندان،قبیلہ یا ملک کو کمزور اور لاچار کرنا چاہتے ہو تو سب سے پہلے اس کے ذرائع آمدن پر وار کرنا ہوگا اور جب کسی گھر،خاندان یا ملک میں مالی بحران پیدا ہوجائے تو پھر اس میں انتشار۔

 بکھراؤ اور ٹھکراؤ پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک دشمن عناصر اپنے طرح طرح کے نسخے استعمال کررہے ہیں جیسے شدت پسندی،افراتفری،احتجاج،ہڑتالوں اور پروپیگنڈوں کے نسخے سرعام دیکھنے کو ملتے ہیں جس کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے ملک میں انتشار اور عدم استحکام پیدا کرنا، تاکہ یہاں کاروبارزندگی،تجارت،روزگار مفلوج ہو،فضا ایسی بنائی جائے کہ بیرونی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کرنے سے بھی کتراتے ہو۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی پاکستان کی معیشت ترقی اور استحکام کی منزل کی جانب بڑھتی ہے ملک دشمن عناصر اور گروہ اس سفر میں رخنہ ڈالنے،اسے سبوتاژ اور روکنے کے لیے اپنی کارروائیاں تیز کرلیتے ہیں۔جس سے ایک بات بڑی واضح ہوتی ہے کہ یہ عناصر آخر چاہتے کیا ہیں،ان کا ایجنڈا کیا ہے اور یہ ایجنڈا ہے کس کا؟

پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا انتہائی اہم عصری تقاضوں کے عین مطابق کامیاب اجلاس منعقد ہوا۔اگرچہ ”اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں“ کے مصداق ملک کی ترقی اور استحکام کے مخالفین نے احتجاجی مظاہروں،جلسوں اور جلوسوں کے نام پر اس کانفرنس کا انعقاد روکنے اس کی راہ میں روڑے اٹکانے،اسے ملتوی کروانے کے لیے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔لیکن اپنے اس مقصد میں مکمل ناکام ہوئے اور شنگھائی کانفرس اسلام آباد میں کامیابی سے ہمکنار ہوگیا۔ چونکہ اب سعودی عرب اور قطر سے پاکستان میں بہت بڑی سرمایہ کاری کے حوالے سے اچھی اور حوصلہ افزاء خبریں آنے لگی ہیں۔ سعودی عرب کے تجارتی وفد کا دورہ پاکستان اور اس کے بعد وزیراعظم شہبازشریف کا سعودی عرب کا دورہ اور دونوں ممالک کا آپس میں اقتصادی تعاون اور تجارت بڑھانے کے معاہدوں سمیت مختلف ترقیاتی منصوبوں پر اتفاق کو دیکھ کر دہشت گردوں،ان کے پشت پناہ اور سہولت کاروں کے ہوش اڑ گئے،ملک کو ترقی اور استحکام کو روکنے والے تو جیسے پاگل ہوتے جارہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ عناصر اور گروہ پھر سے سرگرم ہوگئے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے بعض جنوبی اضلاع میں سیکورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ ساتھ ہی گزشتہ دنوں بلوچستان کے شہر مستونگ کے سکول کے قریب دھماکہ کرکے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ یہ نہ صرف علم، تعلیم اور روشنی کے دشمن ہیں بلکہ ان کا دین،انسانیت اور انسانی اخلاقیات سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں ہماری بعض مذہبی اور سیاسی جماعتیں اب بھی شدت پسندی،کٹرپرستی اور دہشت گردی کے بارے میں اگر مگر، چونکہ چنانچہ اور گومگوں جیسی صورت حال کا شکار نظر آرہی ہیں۔یعنی

”صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں“ اور یہ طرز عمل ایک طرح دہشت گردی کی سپورٹ اور سہولت کاری ہی ہے۔

ملک کے سرخ و سفید پر قابض یہ گدھ پاکستان کے عوام کا گوشت نوچ نوچ کر موٹے ہوچکے ہیں۔یہی گدھ ملک کے نظام میں دی گئی تمام سہولیات،مراعات اور وسائل سے ہر قسم کا فائدہ بھی اٹھارہے ہیں۔اسی ملک کا انفراسٹرکچر استعمال کررہے ہیں،اسی ملک کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ استعمال کرکے بیرونی ممالک کی سیر اور وہاں اپنا کاروبار بھی کررہے ہیں، لیکن جب ملک پر کوئی آفت ٹوٹتی ہے کوئی بحران آتا ہے کوئی مشکل وقت آتا ہے تو پھر پشتو کی کہاوت ہے کہ” خہ کے دے ملگرے یم خو بدہ کے نہ“ یعنی اچھے وقت میں آپ کیساتھ ہوں پر برے وقت میں نا“۔ لہذا آج بھی ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی سیاسی پالیسی،نظریات،مذہبی بیانات اور خطبات سے شدت پسندوں، جنونیوں اور دہشت گردوں کی سہولت کاری کررہے ہیں۔ لہذا پاکستان کے اداروں کو سب سے پہلے ترجیحی بنیادوں پر ایسے ہی لوگوں کے خلاف بلا امتیاز سخت اقدامات اٹھانے چاہیئے۔

پشتو کا ایک ٹپہ ہے کہ

کور کہ د غرہ پہ سر کے جوڑ کڑے

غل چہ د خپلہ کورہ وی تالا بہ شینہ

یعنی اگر آپ اپنا مکان کسی پہاڑ کی چوٹی پر بھی تعمیر کرلیں، جب چور اپنے گھر کو ہو تو بالاخر لوٹ ہی لیا جائے گا۔لہذا باہر کا دشمن اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک اسے اندر سے مخبری نہ ملے اور اسے سہولت کاری میسر نہ ہو۔حکومت اور سیکورٹی اداروں کو اس وقت سب سے زیادہ توجہ اس گھر کے اندر سرگرم عمل ایسے عناصر کی سرکوبی پر دینے کی ضرورت ہے جو انتہاپسندی،شدت پسندی اور دہشت گردی کے سہولت کار اور ان کے کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp