GHAG

آئینی ترمیم: اہمیت، فوائد اور چیلنجز

تحریر: اے وسیم خٹک

26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پاکستان کی پارلیمان نے آئین میں 22 تبدیلیاں متعارف کرائی ہیں۔ ان ترامیم کا مقصد عدالتی نظام میں شفافیت، انصاف کی فراہمی، اور معاشی و انتظامی نظام میں بہتری لانا ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بینچز کی تشکیل، چیف جسٹس کی تقرری کے نئے اصول، اور سود کے مکمل خاتمے جیسے اہم معاملات شامل کیے گئے ہیں۔
آئینی ترمیم کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے عدالتی اختیارات، ججز کی تعیناتی، اور دیگر اہم آئینی امور کو منظم کرنے کی کوشش کی ہے۔ آئینی بینچز کے قیام اور نئے ضوابط سے عدالتوں کی کارکردگی میں شفافیت اور تیزی لانے کا وعدہ کیا گیا ہے، جبکہ سیاسی اور مذہبی تنظیموں نے سود کے خاتمے کا خیرمقدم کیا ہے۔
اس ترمیم کا بنیادی مقصد عوام کے مفاد میں عدلیہ کو موثر بنانا اور ملک سے سود کا مکمل خاتمہ ہے، جس کے تحت مندرجہ ذیل فوائد متوقع ہیں:
• عدالتی بینچز کے قیام سے عدالتوں کی کارکردگی میں بہتری آئے گی اور عدالتی فیصلے زیادہ شفاف ہوں گے۔ مختلف صوبوں سے مساوی ججز کی تعیناتی عدلیہ میں تنوع اور قومی اتحاد کی علامت بنے گی، جس سے لوگوں کو انصاف تک رسائی میں آسانی ہوگی۔
•آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کے اختیارات کو محدود کر دیا گیا ہے، جس سے عدالتیں صرف عوامی مسائل پر فوکس کریں گی، اور غیر ضروری معاملات پر وقت ضائع نہیں ہو گا۔ اس تبدیلی سے عوامی شکایات کو ترجیح ملے گی اور عدالتوں میں غیر ضروری مقدمات کا بوجھ کم ہو گا۔
• آرٹیکل 38 میں کی گئی ترمیم کے تحت حکومت نے 2028 تک ملک سے سود کے مکمل خاتمے کا اعلان کیا ہے، جو کہ اسلامی اصولوں کے تحت ایک دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔ اس اقدام سے ملک میں اسلامی مالیاتی نظام کو فروغ ملے گا، جس کا براہ راست فائدہ عام لوگوں کو ہو گا اور وہ سودی قرضوں کے بوجھ سے آزاد ہوں گے۔
• جوڈیشل کمیشن کی کارکردگی کے جائزے کے نئے اصولوں سے ججز کی سالانہ کارکردگی پر نظر رکھی جائے گی، جو انصاف کی فراہمی میں مزید بہتری لانے میں معاون ثابت ہو گا۔
• چیف جسٹس کی تقرری کے حوالے سے نئے اصول متعارف کرائے گئے ہیں، جن کے تحت ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی اس عمل کی نگرانی کرے گی۔ کمیٹی میں مختلف پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی، جو اس عمل میں سیاسی توازن کو برقرار رکھے گی۔ یہ اقدام عدالتی نظام میں شفافیت اور انصاف کی فراہمی کے لئے ایک مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے تاہم اس بات کا امکان ہے کہ اس سے عدالتی نظام میں سیاسی مداخلت بڑھ سکتی ہے۔
اگرچہ اس ترمیم کے کئی مثبت پہلو ہیں، مگر چند چیلنجز بھی متوقع ہیں:
• چیف جسٹس کی تقرری کے لئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام سے عدلیہ میں سیاسی اثر و رسوخ کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ تقرری کا عمل مکمل طور پر شفاف اور غیر جانبدار ہو تاکہ عدلیہ کی آزادی برقرار رہ سکے۔
• از خود نوٹس کے اختیارات میں کمی کے بعد عدالت کو صرف دائر درخواست کے تحت فیصلے دینا ہوں گے، جو کہ انصاف کے کئی اہم مواقع پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ عدالتوں کے پاس عوامی مفاد کے معاملات میں فوری کارروائی کا اختیار برقرار رہے۔
• آئینی ترمیم نے اسلامی نظریاتی کونسل کو قانون سازی پر مشاورت کا اختیار دیا ہے، لیکن اس کے عملی نفاذ میں بہتری اور وضاحت کی ضرورت ہے تاکہ قوانین اسلامی اصولوں کے مطابق رہیں۔
26ویں آئینی ترمیم پاکستان کی آئینی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے نظام کو بہتر بنانے، عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اصلاحات لانے، اور سود کے خاتمے کے ذریعے معیشت کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عوام کے لئے اس ترمیم کا سب سے بڑا فائدہ ایک شفاف اور موثر عدالتی نظام کی فراہمی ہو سکتی ہے، تاہم اس کے ساتھ سیاسی مداخلت کے خدشات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان اصلاحات پر عمل درآمد کے دوران سیاسی اور عدالتی ادارے مکمل تعاون اور شفافیت کا مظاہرہ کریں تاکہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد مضبوط ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts