تحرير: اے وسیم خٹک
ضلع کرم، خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں ایک اہم اور حساس مقام ہے یہ علاقہ تاریخی اہمیت اور جغرافیائی حالات کے سبب ہمیشہ خبروں کا حصہ رہا ہے۔ یہاں کے عوام گزشتہ دو مہنیوں سے پھر شدید مشکلات کا شکار ہوئے ہیں، جہاں قافلے پر حملے کے بعد گاؤں بگن کو جلانے اور وہاں دونوں اطراف سے فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا جس میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ تب جاکر دونوں فریقین کے ساتھ مذاکرات کی راہ اپنائی گئی اور بہت مشکل سے دونوں فریقین کو علما کی کمیٹیوں اور حکومتی اراکین نے معاہدے پر راضی کرلیا جس کے بعد چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا اور عسکری قیادت کی موجودگی یہ قافلہ خیبرپختونخوا حکومت کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف وزیراعلیٰ کی خصوصی ہدایت پر کوہاٹ سے کرم روانہ ہوئے تاکہ امدادی قافلوں کو محفوظ انداز میں منزل تک پہنچایا جا سکے۔ یہ قافلہ 75 بڑی گاڑیوں پر مشتمل تھا، جن میں خوراک، ادویات، گیس سلنڈر اور دیگر ضروری اشیاء موجود تھیں۔ قافلے کو سخت حفاظتی حصار میں روانہ کیا گیا تاکہ علاقے میں جاری امن عمل متاثر نہ ہو۔
تاہم، امدادی قافلے کی روانگی کے چند گھنٹوں بعد کرم میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ علی الصبح سرکاری گاڑیوں پر نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود شدید زخمی ہوگئے۔ ان کی حالت اب خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے اور انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کرنے کا بندوبست کیا گیا۔ اس حملے میں ایف سی کے دیگر اہلکار بھی زخمی ہوئے۔
یہ واقعہ علاقے میں جاری امن معاہدے کو شدید دھچکا پہنچانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے اس حملے کو ایک گھناؤنی سازش قرار دیا جو شرپسند عناصر کی جانب سے امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کے لیے کی گئی۔ دوسری جانب، گورنر خیبرپختونخوا نے اس واقعے کو انتظامیہ کی نااہلی سے تعبیر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ علاقے میں حفاظتی انتظامات مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
اگر ضلع کرم کا تاریخی تناظرپر بات کی جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ یہ علاقہ صدیوں سے مختلف اقوام اور تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ برطانوی راج کے دوران بھی کرم ایک اسٹریٹجک مقام تھا جہاں قبائلی نظام کو مستحکم رکھنے کے لیے متعدد معاہدے کیے گئے۔ پاکستان کے قیام کے بعد، یہاں کے عوام کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن دہشت گردی کے اثرات نے امن و امان کو شدید نقصان پہنچایا۔
حکومت کی حالیہ امدادی سرگرمیاں عوام کے مسائل کو حل کرنے کی ایک اہم کوشش تھی ، لیکن ان پر ہونے والے حملے اس بات کی غماز ہیں کہ امن کے قیام کا عمل کتنا نازک اور پیچیدہ ہے۔کوئی قوت تو ہے جو عوام کا مفاد نہیں چاہتی اور حالات کی بدتری چاہتی ہے جس کی مثال سامنے ہے۔ جب حالات ٹھیک ہونے جا رہے تھے پھر اس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی جس سے نقصان وہاں کے عوام کو ہے کیونکہ دوائیوں کی کمی کے باعث وہاں اس سرد موسم میں بچے اور عورتیں مر رہی ہیں مگر جو قوتیں اس معاہدے کو خراب کرنے میں لگی ہےان حالات میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک بڑا امتحان ہیں۔ کرم میں دیرپا امن کے قیام کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جو عوامی اعتماد بحال کرے اور علاقے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔ یہ واقعہ اب تقاضا کرتا ہے کہ شرپسند عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور امن معاہدوں کو مضبوط بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھایا جائے۔
(9جنوری 2025)