GHAG

پشتون نئی نسل کو درپیش چیلنجز

عقیل یوسفزئی

18-12-2024

گزشتہ روز پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ ایک سیمنار کے دوران خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلباء نے اپنے مستقبل سے متعلق متعدد سوالات اور خدشات اُٹھاتے ہوئے اس بات پر تشویش کیا کہ ان کو تعلیمی، سیاسی اور سماجی چیلنجز کا سامنا ہے اور یہ کہ پشتونوں کو نہ صرف یہ کہ اپنی شناخت کا مسئلہ درپیش ہے بلکہ اس جنگ زدہ قوم کی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش اور کوشش کے باوجود عدم تحفظ کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں پشتون اسٹوڈنٹس کے حقوق کے تحفظ اور ان کو درپیش مسائل کے حل کے لیے قائم کی گئی پشتون ایجوکیشن اینڈ ڈویلپمنٹ موومنٹ (پی ای ڈی ایم) میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان خصوصاً قبائلی اضلاع کے سینکڑوں طلباء شامل ہیں اور یہ تنظیم گزشتہ کئی سالوں سے روایتی سیاست بازی کے برعکس جہاں ایک طرف اپنے ممبران کے تعلیمی مسائل کے حل کی کوشش کرتی آرہی ہے بلکہ مختلف مواقع پر مختلف برننگ ایشوز اور ایونٹس پر پروگرامز کا انعقاد بھی کرتی رہتی ہے۔

اس تنظیم یا سوسائٹی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ دوسری قومیتوں کے اسٹوڈنٹس اور سیاسی حلقوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر مثبت تعلقات کی بنیاد پر مکالمہ بھی کرتی رہتی ہے اور جب بھی پشتونوں خصوصاً اسٹوڈنٹس کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک ہوتا ہے پی ای ڈی ایم اس کا مہذب طریقے سے نوٹس بھی لیتی ہے۔

لاہور میں گزشتہ روز منعقد ہونے والے سیمنار میں تقریباً 300 طلباء نے شرکت کی جن میں طالبات بھی شامل تھیں۔ سیمنار میں دوسری قومیتوں یا صوبوں کے اسٹوڈنٹس بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر جن موضوعات پر مہمانوں کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی ان میں پشتونوں یا خیبرپختونخوا کے وسائل، قوم پرست قوتوں کا عروج و زوال، مستقبل اور پشتون ثقافت کی اہمیت اور خصوصیات جیسی موضوعات شامل تھیں۔ ان موضوعات پر اپنی آراء پیش کرنے کے لیے پشاور سے نامور شاعر اور سکالر پروفیسر ڈاکٹر اباسین یوسفزئی، صحافی، کالم رائٹر شمس مومند اور تجزیہ کار عقیل یوسفزئی کو مدعو کیا گیا تھا جنہوں نے ان موضوعات پر کئی گھنٹوں تک گفتگو کرتے ہوئے پشتونوں کو درپیش چیلنجز کے علاوہ ان امکانات پر بھی بات کی جن کی بنیاد پر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر اس خطے میں امن اور استحکام کی راہ ہموار ہوجایے تو یہاں موجود بے پناہ قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے کتنے فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

پی ای ڈی ایم کے چیئرمین سیف وزیر نے اور جنرل سیکرٹری فاروق کاکڑ نے استقبالیہ کلمات میں کہا کہ پشتون اسٹوڈنٹس اور عوام سیاسی استحکام، امن اور تعلیم کے متلاشی ہے تاہم ان مقاصد کی حصول میں جاری کشیدگی اور بدامنی کے باعث متعدد رکاوٹیں حائل ہیں جن میں امتیازی سلوک بھی شامل ہے۔ ان کے مطابق پی ای ڈی ایم کئی سالوں سے پنجاب میں اسٹوڈنٹس کے حقوق کی حصول کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے اور اس کی کوشش رہی ہے کہ امن اور بین القومیتی رابطہ کاری کو فروغ دیکر ایک معیاری تعلیم کی حصول کے علاوہ امن ، ترقی اور برداشت کے لیے سب کو ساتھ لیکر کام کیا جائے اور ساتھ میں ان مسائل اور چیلنجز کی نشاندھی بھی کی جائے جن کا پشتونوں کو سامنا ہے۔

سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر اباسین یوسفزئی نے کہا کہ پشتون اس خطے کی قدیم ترین اقوام میں شامل شاندار تاریخ رکھنے والی قوم ہے اور اس کی تاریخ ، روایات اور ثقافت پر نہ صرف بجا طور پر فخر کیا جاسکتا ہے بلکہ حال اور مستقبل کے سیاسی ، سماجی اور ثقافتی منظر نامے میں اس قوم کی اہمیت بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ان کے بقول پشتونوں کو بلاشبہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان کو اپنی شناخت اور ساکھ کا مسئلہ بھی درپیش ہے تاہم ان کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے پاکستان اور خطے کے معاملات کو سدھارنے کی کوششیں بھی جاری ہیں جن میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔

شمس مومند نے اعدادوشمار کی روشنی میں خیبرپختونخوا کے  قدرتی وسائل اور امکانات پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ قدرت نے پشتون بیلٹ کو لامحدود وسائل اور امکانات سے نوازا ہے تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ آئین میں موجود واضح یقین دہانی اور وسائل کی تقسیم کے طے شدہ شرائط کے تعین کے باوجود وفاق کا رویہ ہر دور میں غیر منصفانہ رہا جس کے باعث یہ وسائل خیبرپختونخوا کے عوام کو ان وسائل سے فایدہ نہیں ملا اور بدامنی نے پوری بیلٹ کو شدید نوعیت کے چیلنجر سے دوچار کیے رکھا۔ انہوں نے کہا کہ تمام قومیتوں اور صوبوں کو یکساں حقوق حاصل ہونے چاہئیں تاکہ احساس محرومی کا خاتمہ کیا جاسکے ۔

عقیل یوسفزئی نے کہا کہ پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان کو نہ صرف اندرونی شدت پسندی اور دہشت گردی کا سامنا ہے بلکہ خطے کو  نظریات اور تصادم کے علاوہ وسائل کی حصول کے معاملے پر پراکسیز کی ٹکراؤ کا بھی سامنا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے اور نکلنے کے لئے لازمی ہے کہ نفرت، کشیدگی اور بد اعتمادی کے خاتمے کی عملی کوششوں کا آغاز کرتے ہوئے سب کی آراء، حقوق اور مستقبل کا برابری کی بنیاد پر تحفظ کیا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts