تحریر: بیرسٹر ڈاکٹر عثمان علی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک سال، ایک مہینہ اور آٹھ دن تک چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد آج ریٹائر ہوگئے۔ ان کی شاندار پیشہ ورانہ خدمات اور مضبوط کردار کی بنا پر انہیں ایک عہد ساز شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ ایک قابل قانون دان اور مضبوط کردار کے حامل جج تھے جنہوں نے پاکستان کی عدلیہ میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ ان کے عدالتی فیصلے اور پیشہ ورانہ اصولیت ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
اپنے عدالتی کیریئر کے دوران، انہوں نے کئی اہم اور جراتمندانہ فیصلے کیے جنہیں عدلیہ کی تاریخ میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ ان کے اصولی فیصلوں کی تعریف سب کرتے ہیں، سوائے ان مخصوص حلقوں کے جو برسوں سے غیر قانونی اور جانبدارانہ عدالتی فیصلوں کے عادی ہیں، خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)۔ پی ٹی آئی، جنہیں “گڈ ٹو سی یو” کہنے والے ججوں اور “پراجیکٹ عمران” کے مخالفین کے خلاف غیر آئینی اور غیر قانونی متعصبانہ فیصلوں کی عادت تھی، نے ان پر ہمیشہ تنقید کی اور ان کے خلاف جھوٹا اور ہتک آمیز پروپیگنڈا کیا۔ ان کو ہٹانے کے لیے ان کے خلاف ایک بے بنیاد ریفرنس بھی دائر کیا گیا، جس کا انہوں نے کامیابی سے مقابلہ کیا اور بالاخر چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اعلیٰ ظرفی اور برداشت قابل تحسین ہے۔ انہوں نے نہ تو تنقید کا جواب انتقامی کارروائی سے دیا اور نہ ہی ذاتی حملوں کا اثر لیا۔ کچھ یوٹیوبرز اور مخصوص وکلاء نے ان کے خلاف ہتک آمیز رویہ اپنایا، لیکن انہوں نے ہمیشہ درگزر سے کام لیا۔
ان کی خاص بات یہ تھی کہ وہ عوامی مقبولیت یا دباؤ کے زیر اثر نہیں آئے اور سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی۔ انہوں نے ہمیشہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کیے اور عدلیہ میں شفافیت اور خوداحتسابی کو فروغ دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور عوامی فنڈز کا شفاف استعمال ضروری ہے۔
ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس منصور علی شاہ کی بطور چیف جسٹس نامزدگی کی توقع تھی، لیکن پارلیمنٹ کے 26ویں آئینی ترمیم کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی کو نامزد کیا گیا۔ اس فیصلے سے پی ٹی آئی اور کچھ وکلاء گروپ میں شدید ردعمل سامنے آیا اور اس کی ایک بڑی وجہ ہے ۔”پراجیکٹ عمران” کی طویل مدتی منصوبہ بندی تو پہلے سے جاری تھی، لیکن دسمبر 2016 میں جسٹس ثاقب نثار کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کے بعد اس میں شدت آئی۔ اُس وقت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ہر جتن کے باوجود عمران نیازی کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد عدالتوں کا سہارا لیا، اور عمران مخالفین کو چن چن کر گرفتار کروایا، سزائیں دلوائیں اور نااہل قرار دیا۔
یہ دور چیف جسٹس چوہدری افتخار کے دور کی طرح عدلیہ کی تاریخ کا ایک بدترین اور تاریک دور تھا۔ جسٹس ثاقب نثار کے بعد، سینیارٹی کے اعتبار سے، جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، اور جسٹس عمر عطا بندیال کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس بننا تھا۔ “پراجیکٹ عمران” والوں کے لیے جسٹس عیسیٰ کسی صورت بھی قابل قبول نہیں تھے، اس لیے ان کے خلاف نہ صرف ریفرنس دائر کیا گیا بلکہ انہیں کام سے بھی روکا گیا۔
اس منصوبے کے تحت، جسٹس عیسیٰ کو ہٹانے اور ستمبر 2023 میں جسٹس عمر عطاء بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد، اگست 2025 تک جسٹس اعجاز الحسن، نومبر 2027 تک جسٹس منصور علی شاہ اور دسمبر 2028 تک جسٹس منیب اختر کو چیف جسٹس بنانا تھا۔ یاد رہے کہ جسٹس ثاقب نثار نے یحیٰی افریدی کی حق تلفی کرتے ہوئے جسٹس منیب اختر کو ان سے پہلے سپریم کورٹ میں تعینات کر کے سینئر بنا دیا تھا۔ یہ سلسلہ جون 2031 تک، جسٹس عائشہ ملک کی ریٹائرمنٹ تک جاری رہنا تھا اور اسی دوران انہی چیمبرز اور وکلاء کے گروپ سے مزید ججز کی تعیناتی بھی عمل میں لانی تھی۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی کارروائی کو براہ راست نشر کرنے کا آغاز کیا۔ ان کے دور میں عدالتی شفافیت کو فروغ ملا اور براہ راست نشریات نے عوامی اعتماد میں اضافہ کیا۔ قانون کی معمولی سی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد نے یہ ضرور دیکھا ہوگا کہ نام نہاد نامور وکلاء کی عدالت میں کیا بری حالت ہوتی تھی اور وہ کیسے غیر متعلقہ اور بے ڈھنگے دلائل دیتے تھے۔ اپنی نااہلی کی وجہ سے کیس ہارنے کی صورت میں یہ وکلاء جسٹس عیسیٰ پر جانبداری کا الزام لگاتے تھے۔ یہ وہی سیاسی اور وکلاء کے گروپ کے رہنما ہیں جنہوں نے ان ججز کی مدد سے اربوں روپے کمائے ہیں۔ یہ وکلاء گروپ اپنے مخصوص ججز کی تقرری کرواتا ہے اور پھر ان کے ذریعے بڑے مقدمات میں رعایتیں حاصل کرتے ہیں اور بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں۔
وکلاء اس صورتحال سے بخوبی واقف ہیں۔ یہ سب کچھ نچلی عدالتوں سے لے کر اعلیٰ عدلیہ تک جاری ہے، جس کے نتیجے میں ہماری عدلیہ مسلسل تنزلی کا شکار ہے، جبکہ وکلاء کے بااثر گروہ ترقی کی بلندیوں پر پہنچ رہے ہیں۔ چھبیسویں آئینی ترمیم پر ان گروہوں کا سیخ پا ہونا یقیناً قابل فہم ہے۔
جسٹس عیسیٰ کے دور میں عدالتی شفافیت کو فروغ ملا اور امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئین اور قانون کی بالادستی اور جرات کے لیے خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ پر ان کی صحت، سلامتی، اور لمبی خوشحال زندگی کی دعا کی جاتی ہے۔