کئی دہائیوں تک پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین پر پابندی عائد ہے جس کے باعث نئی نسل میں سیاسی شعور اور سرگرمیوں سے متعلق معاملات بری طرح متاثر ہوتے آرہے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے گزشتہ روز پشاور میں بات چیت کے دوران اعلان کیا کہ ان کی حکومت طلبہ یونین پر سے پابندی ہٹانے کا فیصلہ کرنے جارہی ہے اور یہ کہ بہت جلد تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز کے انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔
اگر وزیراعلیٰ اپنے اس اعلان کو واقعی عملی جامہ پہناتے ہیں تو یہ نہ صرف یہ کہ ایک تاریخی اقدام ثابت ہوگا بلکہ کمزور کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی صوبائی حکومت کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہوگا۔
دنیا بھر میں سٹوڈنٹس یونینز کے انتخابات ہوتے ہیں۔ اس سلسلے کو نئی نسل اور طلبہ و طالبات کی سیاسی نرسری یا ٹریننگ کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ انہی نوجوانوں نے اسی سیاسی شعور اور لیڈر شپ کوالٹیز کو آگے لیکر ملک کے سسٹم کو چلانا ہوتا ہے۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ جو بھی لیڈرز اور وزراء وغیرہ سٹوڈنٹس پالیٹکس سے ہوکر سیاست اور سسٹم میں آتے ہیں ان کی کارکردگی دوسروں کی نسبت زیادہ بہتر ہوتی ہے کیونکہ وہ معاملات اور چیلنجز کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں۔ آج جب ہم وقتاً فوقتاً تعلیمی اداروں اور پورے معاشرے میں تشدد کے واقعات دیکھ رہے ہوتے ہیں اس کی بنیادی وجہ بھی طلباء کی وہ نفسیاتی بے چینی ہے جو کہ ان کے اندر بوجوہ پنپ رہی ہوتی ہے اور وہ موقع ملنے پر تشدد کی شکل میں اس بے چینی کا اظہار کرتے ہیں۔
جس پارٹی سے وزیر اعلیٰ کا تعلق ہے اس جماعت میں طلبہ و طالبات اور نئی نسل کی بہت بڑی تعداد شامل ہے تاہم اس پارٹی اور اس کی حکومت نے اپنے تین مختلف ادوار میں نہ تو اسٹوڈنٹس یونین کی بحالی پر کوئی توجہ نہیں دی اور نا ہی نئی نسل کی سیاسی یا سماجی تربیت پر کوئی توجہ دی ۔ الٹا اس حکومت کو یہ ” کریڈٹ” جاتا ہے کہ اس نے سیاسی اور حکومتی سطح پر نئی نسل کو مخالفین اور ریاستی اداروں کو گالیاں دینے کے لیے استعمال کیا اور اب اسی حکومت نے “ڈیجیٹل ڈائریکٹوریٹ” کے قیام کا جو فیصلہ کیا ہے اس کا مقصد بھی ان سوشل میڈیا انفلونسر کے طرز عمل کو مزید آگے بڑھانے کا تسلسل بتایا جاتا ہے جو کہ محمودخان کے دور حکومت میں مخالفین کے خلاف پروپیگنڈا کے لیے ایک پراجیکٹ کی شکل میں اپنایا گیا تھا اور پھر نگران حکومت نے اس پراجیکٹ کو بند کردیا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل خصوصاً اسٹوڈنٹس کی سیاسی اور سماجی تربیت پر ادارہ جاتی اور سیاسی سطح پر بھرپور توجہ دی جائے ، ان کے لیے تعلیم سستی کی جائے اور روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں کیونکہ ہم ایک ناراض نسل کو پروان چڑھانے کی راہ پر گامزن ہیں اور بڑی بے دردی کے ساتھ نئی نسل کو پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرتے آرہے ہیں۔