عقیل یوسفزئی
پیر کے روز پشاور میں اپنی نوعیت کے ایک غیر معمولی “ایونٹ” کا انعقاد کیا گیا جس میں اہم ترین ریاستی اور سیاسی اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی۔ جاری کردہ بیان میں تو رسمی طور پر یہ کہا گیا ہے کہ اس اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے شرکاء سے سیکورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور پشاور کے کورکمانڈر نے جاری اقدامات پر بریفنگ دی تاہم جس انداز میں غیر متوقع طور پر اہم ترین سیاسی قائدین کو مدعو کیا گیا اور جماعت اسلامی کے مرکزی امیر حافظ نعیم الرحمان، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سمیت اہم شخصیات کو خصوصی طور پر اس اجلاس میں مدعو کیا گیا۔
اس سے سیاسی مبصرین اپنے اپنے انداز میں تبصرے کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اکثر اس بیٹھک کو غیر معمولی مشاورت کا نام دے رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب سے موجودہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے چارج سنبھال لیا ہے اس کے بعد اس لیول پر اپنی نوعیت کا ملکی سطح پر یہ پہلی اعلیٰ سطحی بیٹھک تھی۔ دوسری طرف اس ایونٹ کی ٹائمنگ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جس روز یہ اجلاس منعقد ہوا اسی روز بانی پی ٹی آئی کے خلاف احتساب عدالت میں اس کے مستقبل سے وابستہ اہم ترین کیس یعنی 190 ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلے کا اعلان ہونا تھا جو کہ ملزمان کی عدم موجودگی کے باعث پھر سے 17 جنوری تک موخر کردیا گیا۔ اسی روز بلوچستان کے علاقے کچھی میں سیکورٹی فورسز نے ایک بڑی کارروائی کرتے ہوئے 27 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا جبکہ اس سے ایک دو روز قبل خیبرپختونخوا کے بعض علاقوں میں بھی متعدد اسی نوعیت کے آپریشن کیے گئے۔
اجلاس میں مذکورہ شخصیات کے علاوہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ، ایمل ولی خان، بیرسٹر گوہر خان، مولانا عطاء الرحمان، انجنیئر امیر مقام، امیرحیدر خان ہوتی، پرویزخٹک،محمود خان، پروفیسر ابراہیم اور متعدد دیگر کے علاوہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اور گورنر فیصل کریم کنڈی بھی شریک ہوئے۔
اگر اس پس منظر میں ایک اور زاویہ سے دیکھا جائے تو اس اہم میٹنگ میں خیبرپختونخوا کے تقریباً نصف درجن سابق وزرائے اعلیٰ شریک ہوئے جو کہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ کہلایا جاسکتا ہے اور اسی پس منظر اس بیٹھک کی اہمیت سے متعلق تبصرے جاری ہیں۔ تادم تحریر کسی بھی شریک لیڈر یا پارٹی کی جانب سے اس ایونٹ سے متعلق تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ واقعتاً اپنی نوعیت کی بہت کی انتہائی اہم میٹنگ تھی اور اس سے متعلق محض یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کے انعقاد کا مقصد صرف شرکاء کو صوبے کی سیکورٹی صورتحال پر بریفنگ دینی تھی۔
مبصرین اس بیٹھک کو صوبے اور خطے کے مخصوص حالات کے تناظر میں بعض غیر معمولی فیصلوں سے متعلق بعض متوقع فیصلوں اور اقدامات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آیندہ چند روز میں اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو جائیں گے ۔
شرکاء کی ” باڈی لینگویج ” سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مبینہ طور پر زیر بحث ” موضوعات ” کتنی سنجیدگی کے متقاضی تھے ۔
امکانات اور توقعات اپنی جگہ مگر اس ایونٹ کا انعقاد اس حوالے سے قابلِ ستائش ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر آرمی چیف کی موجودگی میں خیبرپختونخوا کے معاملات اور درپیش چیلنجز پر مشاورت کی گئی جس سے یہ پیغام دیا گیا کہ خیبرپختونخوا ” یتیم” نہیں ہے اور اس کے معاملات کا اس لیول پر نوٹس لیا گیا ہے۔
(14 جنوری 2025)