اے وسیم خٹک
دہشت گردی ایک ایسی لعنت ہے جس نے پاکستان کو کئی دہائیوں تک جکڑے رکھا۔ مختلف ادوار میں ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی کاروائیاں ہوئیں، جن کا مقابلہ کرنے کے لئے مختلف عسکری آپریشنز کیے گئے۔ ان آپریشنز کا مقصد دہشت گرد عناصر کا خاتمہ اور ملک میں امن و استحکام کی بحالی تھا۔ جیسے کہ سوشل میڈیا پر نامعلوم اور غیر ضروری دوستوں کو ان فرینڈ کرنا ایک عام عمل ہے، بالکل اسی طرح ملک کے تحفظ کے لئے بھی نامعلوم اور خطرناک عناصر کو ختم کرنا ضروری ہےجب فیس بک پر آپ کے فرینڈ زیادہ ہوجاتے ہیں تو آپ اُن نامعلوم دوستوں کو ان فرینڈ کرنے کے لئے آپریشن کرتے ہیں ۔ اور خوشی مناتے ہیں ۔جبکہ کئی تو اعلان بھی کرتے ہیں کہ آپریشن کر رہاہوں اپنی حاضری لگائیں ۔تو اسی طرح حکومت بھی سرکوبی کے خاتمے کے لئے آاپریشن کا سہارا لیتی ہے اوراس فیصلے میں پورے ملک کے وزرا علی ، گورنرز سمیت بڑے بڑوں کو اعتماد میں لیا جاتا ہے پھر آپریشن کا اعلان کردیاجاتا ہے ۔ کچھ دن پہلےآپریشن عزم استحکام کا اعلان بھی اس کی کڑی ہے کیونکہ اگر دیکھا جائے تو دو ہزار تیئس اور دوہزا چوبیس میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایا ں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے لئے ایک آپریشن کا ہونا ناگزیر ہوگیا ہے کیونکہ یہ آپریشن عام لوگوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ ٹارگٹڈ لوگوں کے خلاف ہے جو قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں یہ اُن کے خلاف ہے یعنی کہ آسان زبان میں عام لوگوں کے لئے مضر ہیں ۔ تو میری نظر میں عام آدمی جب آپریشن ایسے عناصر کے خلاف کرتا ہے تو پھر حکومت کو بھی ایک وقت گزرنے کے بعد ایسے ہی آپریشن کرکے گلو خاصی کرنی چاہیئے ۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف مختلف عسکری آپریشنز کیے گئے ہیں، جن میں خیبرپختونخوا میں کئی اہم اور مؤثر آپریشنز شامل ہیں۔ یہ آپریشنز نہ صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لئے کیے گئے بلکہ ان کے ذریعے علاقے میں امن و استحکام بحال کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ ان آپریشن سے کافی حد تک حالات تبدیل ہوگئے تھے مگر حکومتی اور سیاسی عدم استحکام کے باعث وہ فائدہ نہ عوام اٹھا سکی اور نہ ہی حکومت کو اس کا فائدہ ملا ۔ حالانکہ دوہزار دو کے بعد سے جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ساتھی رہا ہے تب سے وطن عزیز نے تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ دو ہزار ایک اور دو ہزا دو میں آپریشن اینڈورنگ فریڈم اور پھر 2002 کے آپریشن المیزان ، آپریشن زلزلہ ،آپریشن راہِ حق (2007)، آپریشن شیر دل (اگست 2008)، آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم (اپریل 2009)، آپریشن راہِ راست (مئی 2019)، آپریشن راہِ نجات (جون 2009) اور آپریشن بریخنہ (نومبر 2009) شامل رہے جبکہ اس کے ساتھ کچھ چھوٹے بڑے آپریشن ، درغلم، بیا درغلم، “اوس سم درغلم”، “خیبر ون” اور “خیبر ٹو جیسے آپریشن بھی کئے گئے ،
اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو وطن عزیر میں دہشت گردی کے خلاف آپریشنز کو عمومی طور پر دو بڑے ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور نائن الیون کے بعد 2009 تک جبکہ دوسرا دور 2009 میں جی ایچ کیو پر حملے سے لے کر 2017 میں آپریشن رد الفساد تک محیط ہے۔ ان ادوار میں پاکستانی فوج نے مختلف عسکری اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف کئی آپریشنز کیے تاکہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکے۔
پہلا دور: 2001 سے 2009
آپریشن اینڈورنگ فریڈم (2001–2002)
آپریشن اینڈورنگ فریڈم کی شروعات امریکی اور اتحادی افواج نے افغانستان میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف کی تھی۔ پاکستان نے اس آپریشن میں کلیدی کردار ادا کیا، خاص طور پر سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے نقل و حرکت کو روکنے کے لیے۔ اس دوران پاکستانی افواج نے اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کیں اور کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں۔
آپریشن المیزان (2002–2006)
آپریشن المیزان وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں القاعدہ اور طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف شروع کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کا مقصد دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو تباہ کرنا اور انہیں پاکستانی سرزمین پر حملوں سے روکنا تھا۔ اس دوران پاکستانی افواج نے کئی اہم دہشت گرد رہنماؤں کو گرفتار کیا اور کئی نیٹ ورکس کو ناکام بنایا۔ 2002 میں شروع ہونے والا آپریشن المیزان وزیرستان کے علاقے میں کیا گیا۔ اس آپریشن کا مقصد القاعدہ اور طالبان کے ٹھکانوں کو ختم کرنا تھا جو افغانستان سے پاکستان منتقل ہو رہے تھے۔ یہ آپریشن دہشت گردوں کے خلاف پہلی بڑی کاروائی تھی جس میں کئی اہم دہشت گرد مارے گئے اور علاقے کو بڑی حد تک دہشت گردی سے پاک کیا گیا۔
آپریشن زلزلہ (2008)
آپریشن زلزلہ 2008 میں سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندوں کے خلاف کیا گیا۔ اس آپریشن کا مقصد طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت کو کمزور کرنا تھا، جو ان علاقوں میں شریعت کے نفاذ کی کوشش کر رہے تھے۔ اس دوران پاکستانی فوج نے کئی علاقوں کو طالبان کے قبضے سے آزاد کرایا اور مقامی آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔آپریشن زلزلہ 2008 میں وزیرستان میں کیا گیا۔ اس آپریشن کا مقصد علاقے میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا تھا جو مسلسل کاروائیاں کر رہے تھے۔ یہ آپریشن انتہائی کامیاب رہا اور علاقے میں دہشت گردوں کی سرگرمیاں بڑی حد تک کم ہو گئیں۔
راہِ حق اور آپریشن شیر دل (2007-2009)
آپریشن شیر دل اور راہِ حق سوات میں طالبان کے خلاف کیے گئے بڑے آپریشنز تھے۔ ان آپریشنز کا مقصد طالبان کے زیرِ قبضہ علاقوں کو آزاد کرانا اور مقامی حکومت کو بحال کرنا تھا۔ پاکستانی فوج نے اس دوران کئی اہم علاقوں کو طالبان کے قبضے سے چھڑایا اور مقامی لوگوں کو واپس ان کے گھروں میں بھیجا۔ ۔2007 میں سوات میں شروع ہونے والا آپریشن راہ حق کا مقصد طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو روکنا تھا۔ سوات میں طالبان نے اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور عوام کو سخت قوانین کا پابند بنایا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں سوات میں طالبان کے ٹھکانوں کو ختم کیا گیا اور علاقے کو دوبارہ حکومت کے کنٹرول میں لایا گیا۔آپریشن شیر دل 2008 میں باجوڑ میں کیا گیا۔ باجوڑ ایجنسی میں طالبان اور دیگر دہشت گرد گروپوں نے اپنے ٹھکانے قائم کیے تھے۔ اس آپریشن کا مقصد ان دہشت گرد ٹھکانوں کا خاتمہ اور علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنا تھا۔ یہ آپریشن بھی کامیاب رہا اور علاقے میں دہشت گردی کی سرگرمیاں کم ہو گئیں۔
آپریشن صراط مستقیم (2008)
2008 میں خیبر کے علاقے میں آپریشن صراط مستقیم شروع کیا گیا۔ اس آپریشن کا مقصد علاقے میں موجود شدت پسندوں کا خاتمہ تھا جو سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں حملے کر رہے تھے۔ اس آپریشن کے دوران کئی اہم دہشت گرد مارے گئے اور علاقے میں امن بحال ہوا۔
آپریشن راہ راست (2009)
2009 میں سوات میں شروع ہونے والا آپریشن راہ راست کا مقصد طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کو مکمل طور پر ختم کرنا تھا۔ طالبان نے سوات میں اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی تھی اور علاقے کے لوگوں کو سخت قوانین کا پابند بنایا تھا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں سوات کو طالبان سے آزاد کرایا گیا اور لوگوں کو دوبارہ معمول کی زندگی فراہم کی گئی۔
آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم (2009)
آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم 2009 میں مالاکنڈ ڈویژن میں شروع کیا گیا۔ اس آپریشن کا مقصد علاقے میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا اور علاقے میں امن و امان بحال کرنا تھا۔ یہ آپریشن انتہائی کامیاب رہا اور مالاکنڈ ڈویژن کو دہشت گردوں سے پاک کیا گیا۔آپریل 26, 2009 سے جون 14, 2009 تک سوات, ضلع بونیر, دیر زیریں, شانگلہ میں جاری رہا۔
آپریشن بریخنا (2009)
آپریشن بریخنہ 2009 میں مہمند ایجنسی میں شروع کیا گیا۔ مہمند ایجنسی میں دہشت گردوں نے اپنے ٹھکانے قائم کیے تھے اور علاقے کے لوگوں کو ہراساں کر رہے تھے۔ اس آپریشن کا مقصد ان دہشت گرد ٹھکانوں کو تباہ کرنا اور علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنا تھا۔ یہ آپریشن بھی کامیاب رہا اور مہمند ایجنسی میں امن و امان بحال ہوا۔
آپریشن راہ نجات (2009-2010)
آپریشن راہ نجات جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف ایک بڑا آپریشن تھا۔ اس آپریشن کا مقصد جنوبی وزیرستان کو طالبان کے قبضے سے آزاد کرانا اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا تھا۔ پاکستانی فوج نے اس آپریشن کے دوران کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں اور جنوبی وزیرستان کو طالبان سے پاک کیا۔آپریشن راہ نجات 2009 میں وزیرستان میں کیا گیا۔ اس آپریشن کا مقصد طالبان اور القاعدہ کے ٹھکانوں کو مکمل طور پر ختم کرنا تھا جو علاقے میں موجود تھے۔ اس آپریشن کے دوران کئی اہم دہشت گرد مارے گئے اور علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کیا گیا۔جون 2009ء میں پاک فوج کی جانب سے وزیرستان میں کمانڈر بیت اللہ محسود کے گروپ کے خلاف کی جانے والی فوجی کارروائی کو آپریشن راہ نجات کا نام دیا گیا۔ اس آپریشن کا باقاعدہ آغازپاک فوج کے جنرل ہیڈکواٹرز پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد ہوا۔۔ اس کارروائی میں پاک فضائیہ نےبھی پاک فوج کے ہمراہ حصہ لیا۔ ان آپریشن کے بعد دوسرا دور شروع ہوتا ہے جس میں آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد تھا جس کےبعد اب آپریشن عزم استحکام کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔
دوسرا دور: 2009 سے 2017
آپریشن کوہ سفید (2011)
2011 میں خیبر پختونخوا کے علاقے کرم میں شروع ہونے والا آپریشن کوہ سفید کا مقصد علاقے میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنا تھا۔ یہ آپریشن بھی کامیاب رہا اور علاقے میں امن و امان بحال ہوا۔جون کے اواخر میں وسطی کْرم میں ’’کوہِ سفید‘‘ کے نام سے شروع کیے گئے اس آپریشن کا ہدف وہ ’’دہشت گرد اور شرپسند‘‘ تھے جو خودکش بم دھماکوں، فرقہ وارانہ قتل وغارت اور اغوا برائے تاوان سمیت دیگر جرائم میں ملوث تھے۔اس فوجی آپریشن میں لگ بھگ 200 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا جب کہ اس دوران 11,000 خاندانوں نے نقل مکانی کی۔
آپریشن ضربِ عضب (2014-2016)
آپریشن ضربِ عضب شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑا فوجی آپریشن تھا۔ اس کا مقصد شمالی وزیرستان میں موجود طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے نیٹ ورکس کو تباہ کرنا اور علاقے کو مکمل طور پر دہشت گردوں سے پاک کرنا تھا۔ اس آپریشن کے دوران پاکستانی فوج نے دہشت گردوں کے کئی اہم ٹھکانے تباہ کیے اور علاقے کو کلیئر کیا۔ آپریشن ضربِ عضب 2014 میں وزیرستان میں شروع کیا گیا۔ اس آپریشن کا مقصد دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانوں کو ختم کرنا تھا جو علاقے میں موجود تھے۔ یہ آپریشن پاکستان کے سب سے بڑے اور کامیاب آپریشنز میں سے ایک تھا جس کے نتیجے میں وزیرستان کو دہشت گردوں سے پاک کیا گیا۔آپریشن ضرب عضب پاکستانی فوج کا جون، 2014ء کو وزیرستان میں شروع کیا گيا عسکری آپریشن ہے۔ اس عسکری کارروائی کو ضرب عضب کا نام دیا گيا ہے عضب کا مطلب ہے کاٹنا، تلوار سے کاٹنا، عضب محمد صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی تلوار کا نام بھی تھا۔ ضربِ عضب کاٹ ڈالنے والی ضرب کو کہتے ہیں۔یہ اپریشن جون 2014 میں کراچی میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایک جان لیوا حملے کے تناظر میں شروع ہوا تھا۔
آپریشن خیبر ون، ٹو، اور تھری (2014-2017)
یہ آپریشنز خیبر ایجنسی میں دہشت گردوں کے خلاف کیے گئے تھے۔ ان آپریشنز کا مقصد خیبر ایجنسی کو دہشت گردوں سے پاک کرنا اور علاقے میں امن و امان کی بحالی تھی۔ پاکستانی فوج نے ان آپریشنز کے دوران کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں اور علاقے کو دہشت گردوں سے مکمل طور پر پاک کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ درغلم، بیا درغلم، اوس سم درغلم، خیبر ون، خیبر ٹوخیبر کے علاقے میں بھی مختلف ادوار میں کئی اہم آپریشنز کیے گئے۔ “درغلم”، “بیا درغلم”، “اوس سم درغلم”، “خیبر ون” اور “خیبر ٹو” جیسے آپریشنز کا مقصد علاقے میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنا اور سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں کی سرگرمیوں کو روکنا تھا۔ یہ آپریشنز بھی کامیاب رہے اور خیبر کے علاقے میں امن و امان بحال ہوا۔
آپریشن رد الفساد (2017)
آپریشن رد الفساد پورے پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کا مقصد ملک بھر میں دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو تباہ کرنا اور ان کی مالی معاونت کو روکنا تھا۔ پاکستانی فوج نے اس دوران کئی دہشت گردوں کو گرفتار کیا اور ان کے نیٹ ورکس کو ناکام بنایا۔ان آپریشنز کے ذریعے پاکستانی فوج نے دہشت گردوں کے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کیں اور ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا ۔آخری آپریشن آپریشن رد الفساد 2017 میں پورے ملک میں شروع کیا گیا۔ اس آپریشن کا مقصد دہشت گردی کے باقیات اور دہشت گرد نیٹ ورکس کو مکمل طور پر ختم کرنا تھا۔ یہ آپریشن کسی خاص علاقے تک محدود نہیں تھا بلکہ پورے ملک میں پھیلا ہوا تھا۔
پاکستانی فوج نے مختلف شہروں میں دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں کیں اور کئی اہم دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔ اس آپریشن کا ایک اہم مقصد ملک میں پائیدار امن و امان کی بحالی اور دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کا خاتمہ تھا۔پاکستانی فوج کے ان آپریشنز نے نہ صرف دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو بڑی حد تک تباہ کیا بلکہ ملک میں امن و امان کی بحالی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ان آپریشنز کی بدولت پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی اور عوام کو محفوظ ماحول فراہم کیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف کیے گئے ان آپریشنز نے نہ صرف ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ عوام کو ایک محفوظ اور پر امن ماحول فراہم کیا۔ ان آپریشنز کی بدولت پاکستان میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک بڑی حد تک تباہ ہوا اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی۔ جیسے عام زندگی میں نامعلوم اور غیر ضروری افراد کو سوشل میڈیا پر انفرینڈ کرنا ضروری ہوتا ہے، ویسے ہی ملک کے تحفظ کے لئے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کر کے انہیں ختم کرنا بھی لازمی اور ضروری امر ہے۔اس لئے موجودہ دور میں جب ہر طرف ایک افراتفری کا ماحول ہے ۔ ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کرے اور ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس طرح ہم ایک محفوظ اور خوشحال پاکستان کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے قوم کی حمایت اور اتحاد ضروری ہے تاکہ ہم اپنے وطن عزیز کو ایک بہتر مستقبل دے سکیں۔