GHAG

عزم استحکام کا آغاز اور سیاسی جماعتوں کا منفی پروپیگنڈا

عامر داوڑ

امن و امان کے قیام کے لیے افواج پاکستان اور شہریوں کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حال ہی میں جب ملک میں دہشتگردی کی ایک نئی لہر نے سر اٹھایا، تو اس کو کچلنے کے لیے افواج پاکستان نے نئے عزم کے ساتھ “عزم استحکام” کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ آپریشن کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے، تاہم ملک میں ہر طرف سیاست کھیلی جا رہی ہے۔ حال ہی میں ہونے والے انتخابی نتائج کو کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے، جو جیت گیا وہ بھی ناراض، جو ہار گیا وہ بھی ناراض۔ ایسے میں عوام کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے سیاسی قیادت نے عزم استحکام کے ساتھ آپریشن کے الفاظ خود سے جوڑ کر اپنی سیاسی دکان کو چمکانے کے لیے عزم استحکام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، اور اس کے خلاف مہم چلانا شروع کی، جس میں شہریوں نے بھی اس کے خلاف بولنا شروع کیا۔

سیکیورٹی فورسز نے عزم استحکام کی وضاحت شروع کی، اور کہا کہ یہ اس طرح کا کوئی آپریشن نہیں ہے، جس کی وجہ سے کوئی بے گھر کیا جائے، یا عام شہریوں کو تکلیف یا مسائل کا باعث بنے۔ بلکہ اس میں ٹارگٹڈ کارروائیاں ہوں گی۔ جاری کردہ بیان میں اس عزم کے خلاف بولنے والوں پر بھی تنقید کی گئی، مگر کوئی جماعت بھی افواج پاکستان کی وضاحت سننے کو تیار نہ تھی۔

آخر میں کور کمانڈرز کانفرنس میں فوجی کمانڈروں نے ملک کی اندرونی اور بیرونی سلامتی کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے عزم استحکام پر گفت و شنید کی۔ اس منعقدہ کانفرنس کے شرکاء نے مخصوص نکات حاصل کرنے کی افواہوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ افواہیں قابل تشویش ہیں اور انہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ فوجی قیادت نے خطے کے استحکام اور خصوصاً افغانستان کی صورتحال پر بھی غور کیا۔

آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا کہ عزم استحکام کا مقصد ملک میں پائیدار استحکام اور اقتصادی خوشحالی کے لیے دہشت گردی اور ملک میں منفی سرگرمیوں کو ختم کرنا ہے۔ کانفرنس کے جاری کردہ بیان میں وضاحت کی گئی کہ قومی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو ہم آہنگ طریقے سے بروئے کار لایا جا رہا ہے۔

فورم نے علاقائی سلامتی کی صورتحال کے ساتھ ساتھ پاک افغان تعلقات اور پاک افغان سرحدات پر پاکستان مخالف سرگرمیوں پر بھی بحث کی۔ افغانستان پر غور کرتے ہوئے علاقائی امن کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ فوجی کمانڈروں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سیاسی طور پر حوصلہ افزائی کی جانے والی ڈیجیٹل دہشت گردی، جو ریاستی اداروں کے خلاف ان کے غیر ملکی گروہوں کی طرف سے شروع کی گئی ہے، کا مقصد قوم میں مایوسی پھیلانا، جھوٹ، اور منفی پروپیگنڈے کرتے ہوئے تفریق پھیلانے کی کوشش کرنا ہے۔ ملک میں دو دہائیوں سے دہشتگردی کے خلاف کئی اہم کارروائیاں اور فوجی آپریشنز کیے گئے ہیں۔

قومی سطح پر حکمرانی کرنے والی جماعتوں کے علاوہ ہر سیاسی جماعت اور تحریک نے نئے عزم کو تنقید کا نشانہ بنایا، اور کئی دن تک اپنی جماعتوں کو میڈیا کی زینت بنایا۔ مگر اب عام شہریوں کو بھی سمجھ آ گئی ہے کہ عزم استحکام کی آڑ میں ہر کوئی اپنی دکان چمکانے کی کوشش کر رہا ہے، اور اب صورتحال بہتری کی جانب لائی جا رہی ہے۔

دہشتگردی کے متاثرہ شہری بھی آج دور جدید میں سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں، جنہیں اندازہ ہو گیا ہے کہ ہمارے سیاسی اکابرین کس طرح غلط اور منفی پروپیگنڈے کرتے ہوئے ملک کو ایک بار پھر بدامنی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ ہر کسی کو اندازہ ہے کہ اگر دہشتگردوں کے خلاف عسکری کارروائیاں موثر نہیں ہیں، تو پھر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ 2005 سے اب تک کتنے امن معاہدے یا امن مذاکرات ہوئے ہیں، اور ابھی تک کوئی بھی امن معاہدہ کامیاب نہیں ہوا؟

 دہشتگردی کے خاتمے کیلئے آپریشنز کی تفصیل:

2007 میں سوات میں ‘آپریشن راہ حق’ شروع کیا گیا، جسے سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف چلایا۔

2009 میں سوات میں سیکیورٹی کی خراب صورتحال کے باعث ‘آپریشن راہ راست’ شروع کیا گیا، جسے آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی نے چلایا۔

2009 میں جنوبی وزیرستان میں ‘آپریشن راہ نجات’ شروع کیا گیا۔

2014 میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فوجی آپریشن ‘آپریشن ضرب عضب’ آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی قیادت میں شروع کیا گیا۔

2016 میں آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے فوج کی کمان سنبھالی اور ‘آپریشن رد الفساد’ کے نام سے ایک انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن شروع کیا، جس کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلایا گیا۔

ان آپریشنز کے باوجود دہشتگردی کی صورتحال میں بہتری نہیں آئی اور حال ہی میں پاکستان حکومت نے ‘عزم استحکام’ کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ عزم استحکام کا مقصد خطے میں مستقل امن کے قیام کے لیے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات اپنانا ہے۔

امن معاہدوں کی تفصیل:

ماضی میں پاکستان نے کئی شدت پسند تنظیموں کے ساتھ باقاعدہ تحریری اور بعض اوقات غیر تحریری معاہدے کیے ہیں۔ ان میں تین بڑے معاہدے سوات اور جنوبی وزیرستان میں کیے گئے۔

ان تمام معاہدوں سے متعلق دو اہم حوالے قابل ذکر ہیں۔ ایک یہ کہ ان معاہدوں یا مذاکرات کے وقت ان علاقوں میں ریاست کی رٹ بالکل ختم ہو چکی تھی، فوج کو بھاری نقصان کا سامنا تھا لہٰذا حکومت کی پوزیشن نہایت کمزور اور شدت پسند تنظیموں کا پلڑا بھاری تھا۔

دوسرا یہ کہ تقریباً تمام معاہدے ناکام ثابت ہوئے اور ان کے نتیجے میں شدت پسند تنظیموں کو نہ صرف ان علاقوں میں قدم جمانے کا موقع ملا بلکہ ان تنظیموں نے دیگر علاقوں میں پھیلنا شروع کر دیا۔

ذیل میں ان چند معاہدوں کی تفصیل ہے جو پاکستان اور شدت پسند تنظیموں خصوصاً طالبان کے ساتھ طے پائے گئے

شکئی امن معاہدہ

سلیم شہزاد کی کتاب ’انسائیڈ القاعدہ اینڈ دی طالبان بیانڈ بن لادن‘ کے مطابق 24 اپریل 2004 کو شکئی امن معاہدہ ہوا، جو پاکستانی حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان پہلا معاہدہ تھا۔ یہ معاہدہ جنوبی وزیرستان میں نیک محمد اور حکومت کے درمیان ہوا۔ پاکستانی فوج نے کلوشہ آپریشن کے بعد مذاکرات کا فیصلہ کیا۔

اسٹیو کول کی کتاب ’ڈائریکٹوریٹ ایس‘ کے مطابق، نیک محمد کی پناہ میں غیر ملکی جنگجو تھے جو افغانستان اور پاکستان میں کارروائیاں کر رہے تھے۔ معاہدے کے تحت نیک محمد کے ساتھیوں کی رہائی اور نقصان کے ازالے کا وعدہ کیا گیا۔

نیک محمد نے غیر ملکی جنگجوؤں کو حوالے کرنے سے انکار کر دیا، جس سے ان کی طاقت میں اضافہ ہوا اور القاعدہ کو آپریشنل بیس ملی۔ معاہدہ جلد ختم ہوا اور جون 2004 میں دوبارہ فوجی آپریشن شروع ہوا۔ ایک ماہ بعد امریکی ڈرون حملے میں نیک محمد ہلاک ہو گئے۔

سراروغہ امن معاہدہ

فروری 2005 میں جنوبی وزیرستان کے علاقے سراروغہ میں بیت اللہ محسود کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا جس میں محسود نے حکومتی اہلکاروں اور دفاتر پر حملے نہ کرنے اور غیر ملکی شدت پسندوں کو پناہ نہ دینے کی یقین دہانی کرائی۔ بدلے میں ان کے ساتھیوں سمیت معافی کا اعلان کیا گیا۔

تاہم، یہ معاہدہ ناکام ثابت ہوا کیونکہ طالبان کا اثرورسوخ شمالی وزیرستان اور دیگر علاقوں تک پھیل گیا۔ شہری علاقوں میں خودکش حملوں کا سلسلہ شروع ہوا اور بیت اللہ محسود کی سرپرستی میں تحریک طالبان پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

2008 میں فوج نے آپریشن زلزلہ شروع کیا اور بعد میں راہ نجات جیسے آپریشنز کیے، مگر یہ معاہدہ طالبان کو روکنے میں ناکام رہا۔

سوات امن معاہدہ

سوات میں تیسرا امن معاہدہ مئی 2008 میں ہوا۔ 2001 سے سوات میں شدت پسندی بڑھ رہی تھی اور ملا فضل اللہ شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ 2007 کے لال مسجد واقعے نے ان کی حمایت بڑھائی۔

2008 میں پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے سوات کے حالات بہتر کرنے کے لیے مذاکرات کیے۔ 16 نکات پر مشتمل معاہدہ ہوا، مگر فضل اللہ نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا اور فوج کے انخلا کا مطالبہ کیا۔

نتیجتاً حملے دوبارہ شروع ہوئے اور فوج نے “آپریشن راہ حق” کا آغاز کیا۔ 2009 میں حکومت نے “نظام عدل” نافذ کیا مگر معاہدہ ناکام رہا۔ آخر کار، “آپریشن راہ راست” کے دوران فضل اللہ اور ساتھی فرار ہوگئے۔ فوج نے مقامی افراد کے لیے معافی اور ڈی ریڈیکلائزیشن مراکز قائم کیے۔

غیر تحریری معاہدے:

غیر تحریری معاہدے اکثر عسکریت پسند گروہوں کو محدود کرنے کے لیے کیے جاتے تھے تاکہ فوج کو منصوبہ بندی کے لیے وقت مل سکے۔ ایک اہم غیر تحریری معاہدہ 2006 میں شمالی وزیرستان میں حافظ گل بہادر کے ساتھ ہوا، جو شوری مجاہدین گروپ کے سربراہ تھے اور افغانستان میں حملوں کے الزام میں ملوث تھے۔ ان سے معاہدہ ہوا کہ وہ پاکستانی فوج اور شہریوں کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے۔ یہ معاہدہ 2008 میں دوبارہ کیا گیا، مگر 2014 میں شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے آغاز پر گل بہادر نے معاہدہ توڑ دیا۔

اسی طرح کا ایک اور معاہدہ خیبر ڈسٹرکٹ میں لشکر اسلام اور انصار الاسلام کے ساتھ ہوا جو ناکام رہا اور فوج کو آپریشن صراط مستقیم شروع کرنا پڑا۔ باجوڑ میں 2008 میں فقیر حسین کے ساتھ بھی معاہدہ ہوا مگر وہ بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور فوج کو آپریشن شیر دل کرنا پڑا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts