24نومبر کے احتجاج سے پہلے 46 کانگرس اراکین کا خط پاکستان کو بین الاقوامی طور پر کمزور کرنا ہے، تجزیہ کاروں کی رائے
کانگرس اراکین بانی پی ٹی آئی کی حمایت کرتے ہیں لیکن کشمیر اور فلسطین کے مظالم پر چپ کیوں ہیں؟
نیا خط صیہونی طاقتوں کی جانب سے آپریشن گولڈ سمتھ کی ایک نئی کڑی قرار دی جارہی ہے
اس خط اور غیر ملکی لابنگ نے بانی پی ٹی آئی کے نظریہ “ہم کوئی غلام ہیں” کو عملاً دفن کر دیا ہے، سیاسی تجزیہ کار
پشاور(غگ رپورٹ) صیہونی قوتوں کی جانب سے آپریشن گولڈ سمتھ میں مزید تیزی آگئی ہے اور ایک بار پھر امریکی کانگرس کے 46 اراکین نے بانی پی ٹی آئی کی حمایت میں خط لکھ دیا ہے جس میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں شامل ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق 24 نومبر کے احتجاجی کال سے پہلے اس خط کا مقصد پاکستان کو بین الاقوامی طور پر بدنام کرکے کمزور کرانے کی ناکام کوشش ہے کیونکہ یہی کوشش بانی پی ٹی آئی کی جانب سے بھی جاری ہے۔
بانی پی ٹی آئی کی جانب سے 24 نومبر کو دی جانے والی احتجاجی کال سے قبل ایک بار پھر امریکی کانگرس کے 46 اراکین جن میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں شامل ہیں۔
کانگرس اراکین کی جانب سے امریکی صدر جوبائیڈن کو لکھے گئے خط میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں گرفتار بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے کوشش کریں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی 60 اراکین کی جانب سے ایک خط امریکی صدر کو لکھا گیا تھا اور اسی طرح مجموعی طور پر اب کانگرس کے 100 سے زائد اراکین نے صدر جوبائیڈن سے بانی پی ٹی ائی کے رہائی کے لئے کوششیں کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہی قرار دی جا سکتی ہے۔
بانی پی ٹی آئی اور اس کی جماعت کے صیہونی لابی کے ساتھ گہرے روابط ہیں، سیاسی تجزیہ کار
پاکستان کے کئی سیاسی تجزیہ کار واضح طور پر کہتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی اور اس کی جماعت کے صیہونی لابی کے ساتھ گہرے روابط ہیں اور وہ بانی پی ٹی آئی کو اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لیے مہرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یہاں سوال یہ بھی ہے کہ یہ امریکی کانگرس میں بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ناروا سلوک کا پروپیگنڈا تو کرتے ہیں مگر اسرائیل کے فلسطین اور کشمیر پر مظالم پر ان کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق 24 نومبر کے احتجاج سے قبل ایک اور خط کا آنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صیہونی طاقتوں کی جانب سے یہ عمل آپریشن گولڈ سمتھ کی ایک نئی کڑی ہے جو کسی بھی صورت انتشار کا شکار پی ٹی آئی اور عوامی عدم دلچسپی کی وجہ سے ناکام جلسوں میں دوبارہ جان ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کانگرس اراکین کا امریکی صدر کو کردار ادا کرنے کا مطالبہ اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، سفارتی تجزیہ کار
دوسری جانب سفارتی تجزیہ کاروں کا اس نئے خط کے حوالے سے کہنا ہے کہ امریکی کانگرس کے اراکین کا بار بار صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے کردار ادا کرنے کا کہنا کسی بھی خود مختار ملک کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے اور یہ سفارتی اصولوں کے خلاف ہے سفارتی تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی اعلی عدالتیں آزاد ہیں، آئین پاکستان کے مطابق فیصلے کر رہی ہیں لہذا کسی بھی ملک کی دباؤ کے پیش نظر کسی بھی ایسے قیدی کو رہا کرنا ممکن نہیں ہے جو کرپشن، دہشت گردی اور عوام کو ریاست کے خلاف اکسانے جیسے مقدمات میں ملوث ہو۔
بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے، سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے متعلق مقدمات عدالتوں میں زیرسماعت ہیں اور ان کا فیصلہ اعلی عدالتوں نے کرنا ہے۔ سیاسی جماعت کا بار بار لابیز کا استعمال کر کے غیر ملکی قوتوں کو مدد کے لیے بلانا ریاست پاکستان کی خود مختاری پر سوال اٹھانے کے مترادف ہے جس کا عدالتوں کو سختی سے نوٹس لینا چاہیے۔
سیاسی اور خارجہ امور کے ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بیرون ملک فرار کچھ نام نہاد پی ٹی آئی کے ارکان غیر ملکی لابیز اور سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان مخالف سرگرمیوں اور ریاست اور ریاستی اداروں کے مخالف پروپگنڈے میں مصروف عمل ہیں اس منظم غیر ملکی لابنگ سے قبل بھی عالمی ذرائع ابلاغ اور نشریاتی اداروں انٹرسیپٹ، فائنشل ٹائمز الجزیرہ، بی بی سی جیسے جریدے بانی پی ٹی آئی اور اس کی جماعت کی لابنگ میں پیش پیش نظر آئے ہیں اور شاید اگے بھی نظر آئیں گے تاکہ احتجاجی تحریکوں کو کامیاب بنایا جا سکے ۔
خط میں امریکی سفیر ڈونلڈبلوم کے کردار پر تحفظات کا اظہار
امریکی اراکین کانگرس کی جانب سے یہ دوسرا خط لکھا گیا ہے اس میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ان تمام اراکین کانگرس نے پاکستان میں متعین امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے کردار پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ ڈونلڈ بلوم پاکستان میں گرفتار سیاسی قیدیوں اور پاکستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس حوالے سے امریکہ کی پالیسی کو انہوں نے نظر انداز کیا ہے۔
سفارتی تجزیہ کار اس حوالے سے کہتے ہیں کہ امریکی کانگرس کے اراکین کی جانب سے ڈونلڈ بلوم پر الزام تراشی بے معنی ہیں۔ ڈونلڈ بلوم نے اپنے دور میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو مزید بہتر کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ اس بات سے پوری طرح واقف ہیں کہ کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا مطلب اس ملک سے تعلقات خراب کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔
شواہد کی روشنی میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ مختلف کمپنیوں اور بااثر شخصیات کو پی ٹی آئی نے لابنگ کے لیے مجموعی طور پر لاکھوں ڈالرز فنڈ فراہم کیے ہیں۔ ان فنڈ فرام کرنے کا مقصد بانی پی ٹی آئی کے رہائی کے لیے بین الاقوامی سطح پر مہم کو چلوانا ہے اور دنیا کو قائل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔
اراکین کانگرس کے خط کی کوئی حیثییت نہیں، سیاسی تجزیہ کار
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اراکین کانگرس کی جانب سے یہ دوسرا خط بھی پہلے خط کی طرح کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔ مذکورہ بالا خط حقائق کے منافی اور ایک طرفہ کہانی کو بیان کرتا ہے۔ اس خط کا مقصد پاکستان کے نظام انصاف پر دباؤ ڈالنا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار پی ٹی آئی کی جانب سے بار بار امریکی کانگرس مین سے مدد کے لیے خط لکھوانے پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس خط اور غیر ملکی لابنگ نے بانی پی ٹی آئی کے نظریہ “ہم کوئی غلام ہیں” کو عملاً دفن کر دیا ہے۔