اب اس میں نہ تو کوئی غلط فہمی رہی ہے نا خوش فہمی کہ پاکستان تحریک انصاف کے پاس پولیٹیکل کارڈز ختم ہو کر رہ گئے ہیں اور اب بال ریاست کی کورٹ میں ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی بارگیننگ پوزیشن سے محروم ہوکر رہ گئی ہے اور اس کے سیاسی مستقبل کا انحصار ریاستی “رحمدلی” یا “دریا دلی” پر منحصر ہے۔ فائنل کال کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی نے لاشوں کی سیاست کا جو روایتی پروپیگنڈا استعمال کیا اس طرز عمل نے ریاست کو مزید مشتعل کردیا کیونکہ اس پروپیگنڈا کو 9 مئی کے تلخ واقعات کی شکل میں دیکھا گیا۔ پی ٹی آئی کے ہارڈ کور لیڈروں نے ریاست کے موڈ کا اندازہ لگانے اور اسی تناظر میں کوئی مصالحانہ طرز عمل اختیار کرنے کی بجائے پوائنٹ اسکورنگ کا روایتی حربہ استعمال کیا جس نے مصالحت کی گنجائش مزید کم کردی اور اس وقت حالت یہ ہے کہ پی ٹی آئی مذاکرات کی “منتیں” کررہی ہے مگر دوسری جانب سے خاموشی اور لاتعلقی اختیار کی گئی ہے۔
جب بھی بیرسٹر گوہر اور بعض دیگر معتدل مزاج لیڈر ٹمپریچر نارمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں عمران خان، بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کوئی ایسی بات یا حرکت کرلیتے ہیں کہ ریاست مزید سختی پر اتر آتی ہے اور گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ہر روز پی ٹی آئی کو کوئی نہ کوئی دھچکا لگتا رہا ہے۔ اگر ایک طرف فیض حمید کی چارج شیٹ میں 9 مئی اور دیگر متعلقہ معاملات پر ریاست خاص طور پر پاک فوج کا مزید سخت نکات سامنے آئے تو اگلے روز توشہ خانہ 2 میں فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ سامنے آیا۔
اس پر بحث جاری تھی کہ 9 مئی کے واقعات کے پس منظر میں سویلین کی ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا اقدام اٹھایا گیا۔ اس پر بحث ختم نہیں ہو پائی تھی کہ بانی پی ٹی آئی، بشریٰ بی بی اور تقریباً تمام اہم لیڈروں کے خلاف رینجرز کی مدعیت میں 26 نومبر کے ایک حادثہ کی بہت سخت نوعیت کی ایف آئی آر سامنے آئی۔ یہ اپنی نوعیت کی وہ واحد ایف آئی آر ہے جو کہ باقاعدہ ایک سیکورٹی ادارے کی مدعیت میں درج کی گئی ہے اور ماہرین اس ایف آئی آر میں شامل بعض دفعات کو پی ٹی آئی اور اس کے لیڈروں کے لیے بہت خطرناک قرار دے رہے ہیں۔
جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کے نتائج کے پس منظر میں ایک بات بلکل واضح ہے اور وہ یہ کہ پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی حکومت نے معاملات کو مذاق سمجھ کر پرتشدد طریقے سے ڈیل کرنے کی جو پالیسی اختیار کی اس کے سنگین اثرات اب تیزی کے ساتھ مرتب ہوتے نظر آرہے ہیں اور پارٹی عملاً دیوار سے لگ کر رہ گئی ہے۔