GHAG

بدامنی کے اسباب پر غور کرنے کی ضرورت

تحریر: اے وسیم خٹک

پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبرپختونخوا میں بدامنی اور دہشتگردی کی لہر ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے جس نے عوام میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ ملک میں دہشتگردی کے خلاف جنگ اور سیکیورٹی کے نام پر اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں مگر حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومتی دعوے اور منصوبے صرف کاغذوں تک محدود ہیں اور زمینی حقائق کسی اور ہی کہانی کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ حالیہ واقعات صرف ایک بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال نہیں بلکہ حکومتی ناکامی اور غفلت کی واضح تصویر ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے درازندہ روڈ پر ہونے والا افسوسناک واقعہ اس بگڑتی ہوئی صورتحال کا ثبوت ہے جہاں نامعلوم دہشتگردوں نے ایف سی کے قافلے پر حملہ کیا۔ یہ قافلہ ڈی آئی خان سے زام چیک پوسٹ کی جانب جا رہا تھا، جب درازندہ کے قریب دہشتگردوں نے اس پر حملہ کیا۔ اس افسوسناک واقعے میں 9 سیکیورٹی اہلکار شہید، 3 زخمی جبکہ ایک اہلکار لاپتہ ہوگیا۔ شہداء میں نائب صوبیدار محمد جان، نائیک عارف، لانس نائیک سعید الرحمن، سپاہی اخون زادہ، سپاہی حضرت اللہ، سپاہی مشتاق، سپاہی عبدالصمد، سپاہی عمران اور سپاہی بصیر شامل ہیں جبکہ زخمیوں میں نائیک حمزہ نور، سپاہی حسن اور سپاہی صابر ایوب شامل ہیں۔ حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز اور پولیس نے علاقے کا گھیراؤ کیا، مگر سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ایسے واقعات دہراتے رہیں گے؟

دوسری جانب ضلع خیبر کے علاقے تھانہ ملاگوری میں بھی دہشتگردی کا ایک اور افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں پولیس اہلکاروں پر نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کی۔ ڈی پی او رائے مظہر اقبال کے مطابق اس واقعے میں ایک پولیس اہلکار شہید ہوگیا جبکہ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس نے علاقے میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی ہے اور مختلف جگہوں پر ناکہ بندیاں قائم کی ہیں تاکہ ایسے واقعات کا سد باب کیا جا سکے۔

بنوں کے علاقے میں بھی دہشتگردی کے خلاف جدوجہد جاری ہے جہاں بکاخیل پولیس تھانے پر رات گئے حملہ کیا گیا۔ دہشتگردوں کی فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار زخمی ہوگیا، جسے فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بنوں منتقل کیا گیا۔ ایس ایچ او فیاض خان کے مطابق پولیس کی بروقت جوابی کارروائی نے دہشتگردوں کے منصوبے کو ناکام بنا دیا اور وہ فرار ہونے پر مجبور ہوگئے۔لیکن یہاں بھی سوال یہ اٹھتا ہے کہ کب تک سیکیورٹی اہلکار اپنی جانیں قربان کرتے رہیں گے اور کب حکومت اس مسئلے کا ٹھوس حل نکالے گی؟

یہ تمام واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ صوبے میں حکومتی رٹ کمزور ہو رہی ہے اور سیکیورٹی کے حالات دن بدن خراب ہو رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جب پولیس اور فوج کے جوان اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، حکومتی توجہ کہیں اور ہے۔ سیاستدان اپنی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں، اپنے لیڈروں کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ عوام کو سبکی اور لاشیں اٹھانے کے سوا کچھ نہیں مل رہا۔ کیا عوامی تحفظ صرف ایک نعرہ ہے یا حقیقت میں اس پر عمل بھی ہو رہا ہے؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے مفادات سے ہٹ کر عوام کی سلامتی پر توجہ دے اور دہشتگردی کے خلاف ایک مضبوط اور جامع حکمت عملی اپنائے، ورنہ اس بگڑتی ہوئی صورتحال کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا پڑے گا۔ عوامی اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت صرف بیانات دینے کے بجائے عملی اقدامات کرے تاکہ وہ دن واپس آ سکیں جب خیبرپختونخوا امن و سکون کا گہوارہ تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

Related Posts