تحریر: اے وسیم خٹک
حالیہ آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے ہونے والا بڑا فیصلہ سامنے آیا ہے جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی کو پاکستان کے اگلے چیف جسٹس کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔ آئینی ترمیم سے قبل جسٹس منصور علی شاہ اس عہدے کے لیے مضبوط امیدوار تھے، لیکن نئے قانون کے تحت اب ان کی جگہ جسٹس یحییٰ آفریدی کا نام سامنے آیا ہے۔ اس فیصلے نے عدالتی حلقوں اور سیاسی منظر نامے میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہیں اور سابق چیف جسٹس فائزعیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے سب سے تجربہ کار ججوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ ایچی سن کالج سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے وکالت کی ڈگری لے چکے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کا عدالتی سفر 1991 میں وکالت کے آغاز سے شروع ہوا اور 1997 میں انہوں نے آفریدی، شاہ اور من اللہ لاء فرم کی بنیاد رکھی۔
2007 میں جسٹس منصور علی شاہ نے وکلاء تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور 15 ستمبر 2009 کو لاہور ہائیکورٹ میں ایڈیشنل جج کے طور پر تعینات ہوئے۔ بعد ازاں وہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر بھی اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ان کی تقرری 2018 میں عمل میں آئی، جہاں انہوں نے کئی اہم مقدمات میں فیصلے دیے اور عدالتی نظام میں اصلاحات متعارف کرائیں۔ تاہم، حالیہ آئینی تبدیلیوں کے بعد وہ چیف جسٹس بننے کے لیے اہل نہیں رہے، جس پر عدالتی حلقوں میں مختلف آراء سامنے آرہی ہیں۔
جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر لاہور سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان کے معروف وکیل خالد انور کے داماد ہیں۔ انھوں نے ایچی سن کالج سے تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں امریکہ سے قانون کی اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ کراچی میں وکالت کا آغاز کرنے کے بعد وہ 2009 میں سندھ ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج تعینات ہوئے اور دو سال بعد مستقل جج بنے۔
2018 میں جسٹس منیب اختر کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔ ان کا شمار آئینی مقدمات کی سماعت کرنے والے بینچوں کے اہم رکن کے طور پر ہوتا رہا ہے۔ سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور میں انھوں نے کئی اہم اور متنازع فیصلے دیے جن میں آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے دیا گیا صدارتی ریفرنس بھی شامل ہے۔ اس فیصلے کی وجہ سے پنجاب حکومت میں تبدیلی آئی اور بعد میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی
جسٹس یحییٰ آفریدی کا تعلق خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع سے ہے۔ وہ برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور اپنے عدالتی کیریئر کا آغاز آفریدی، شاہ اور من اللہ لاء فرم سے کیا۔ انھیں 2010 میں پشاور ہائیکورٹ کے ایڈیشنل جج کے طور پر تعینات کیا گیا اور 2012 میں مستقل جج بن گئے۔
2016 میں وہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے اور 2018 میں سپریم کورٹ میں تعینات ہوئے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کئی اہم مقدمات میں اپنی موجودگی کو ثابت کیا، بشمول سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس اور حالیہ آئینی مقدمات۔ سپریم کورٹ میں ان کی سینارٹی تیسرے نمبر پر تھی، مگر اب انہیں چیف جسٹس کے عہدے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔
آئینی ترمیم اور چیف جسٹس کی تعیناتی
26ویں آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس کی تقرری کا دورانیہ تین سال تک محدود کر دیا گیا ہے جس کے بعد انہیں ریٹائر تصور کیا جائے گا، چاہے ان کی عمر 65 سال تک نہ پہنچی ہو۔ اس تبدیلی کے بعد ججوں کی سینیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ کار متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے اس بار جسٹس منصور علی شاہ کی جگہ جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس منتخب کیا گیا ہے۔
یہ فیصلہ نہ صرف آئینی بلکہ سیاسی حلقوں میں بھی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور عدالتی نظام میں اصلاحات کی باتیں بھی اس تناظر میں زور پکڑ رہی ہیں۔ نئے چیف جسٹس کے لیے آئندہ تین سال بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا، جن میں عدالتی اصلاحات، تیز رفتار انصاف کی فراہمی اور اہم آئینی مقدمات کی سماعت شامل ہیں۔